Sunday, November 1, 2009

civic system

عہد نبوی کا شہری نظام






مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرکے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق و شام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن و حضر موت تک، اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیجِ فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور عملی طور سے پورے جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی۔
اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم و نسق عرب قبائلی روایات پر قائم و استوار تھا تاہم جلد ہی وہ ایک ملکگیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ عربوں کے لئے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے۔ یہ سیاسی اکائیاں آزاد و خود مختار ہوتی تھیں جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں مسلسل سیاسی چپقلش، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہِدار تھیں۔ عربوں میں نا صرف مرکزیت کا فقدان تھا بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ وہ کسی ’’غیر‘‘ کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ رسول اکرمﷺ کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپ نے مرکزیت دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ’’قبیلہ یا خون‘‘ کے بجائے ’’اسلام یا دین‘‘ معاشرہ و حکومت کی اساس تھا۔ اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا۔ جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لئے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالا دستی تسلیم کرنی ضروری تھی۔
اﷲ کے رسولﷺ نے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھا تو آپﷺ کی زبانِ مبارک پر سورۂ بنی اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے رہتی تھی:
ترجمہ: ’’اے اﷲ! (نئی منزل میں) صدق و صفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے وہاں کا نکلنا بھی صِدق و صفا پر مبنی ہو۔ (نئی جگہ مجھے دین کے پھیلانے کے لئے) غلبہ عطا فرما۔(سورہ بنی اسرائیل:80)
چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کی دعاقبول فرمائی ۔ اسلامی مملکت کے قیام کے لئے آپﷺ کو غلبہ عطا فرمایا۔ ابھی آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان ہی میں قیام فرماتھے کہ آپﷺ نے میثاقِ مدینہ کا اہتمام کیا۔ اس غرض کے لئے آپﷺ نے مہاجرین، انصار، یہود، عیسائی اور دیگر قبائل کو جمع کیا۔ آپﷺ نے جو کچھ گفتگو فرمائی اُس کے بعد آپﷺ نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی۔ ابتدائی مؤرخین نے اسے صحیفہ کا نام دیا ہے..... یہ حکمرانِ وقت کا ایک فرمان تھا، ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا جس پر اُن لوگوں کے دستخط تھے۔ اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ لکھتے ہیں ’’مدینہ میں ابھی نراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے تو یہودی بنو النضیر و بنوقریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں، ان میں باہم نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے، اور کچھ عرب، کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہو کر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے۔ ان مسلسل جنگوں سے اب دونوں بھی تنگ آچکے تھے اور گو وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے۔ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہورہا تھا اور ایک کافی بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبداﷲ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنادیں، حتی کہ بخاری و ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاجِ شہریاری کی تیاری بھی کاریگروں کے سپرد ہوچکی تھی۔ بلاشبہ حضورﷺ نے بیعتِعقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی، مگر اس سے قطع نظر وہاں ہرقبیلے کا الگ راج تھا، اور وہ اپنے اپنے سقیفے یا سائبان میں اپنے امور طے کیا کرتا تھا، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا۔ تربیت یافتہ مبلغوں کی کوشش سے تین سال کے اندر شہر میں معتدبہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے، مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا۔ اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی، اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے۔ ان حالات میں حضورﷺ مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت متعدد فوری ضرورتیں تھیں:
-1اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین۔
-2 مہاجرین مکہ کے قیام اورگزربسر کا انتظام۔
-3 شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ۔
-4 شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام۔
-5 قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کا بدلہ۔
ان ہی اغراض کے مدّنظر حضورﷺ نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جس کے معنی دستور العمل اور فرائضنامہ کے ہیں۔ اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا‘‘۔ (ڈاکٹر حمید اﷲ کی بہترین تحریریں۔ مرتبہ: قاسم محمود۔ صفحہ 253)
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے.....
-1 آبادیوں میں امن و امام قائم رہے گا تا کہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
-2 مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی۔
-3 فتنہ و فساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا۔
-4 بیرونی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔
-5 حضورِ اکرمﷺ کے حکم کے بغیر کوئی جنگ کے لئے نہ نکلے گا۔
-6 میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اﷲ کے رسولﷺ سے رجوع کیا جائے گا۔
اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے، الگ الگ دفعات مرقوم ہیں۔ یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا۔ یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضوراکرمﷺ یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ آپﷺ نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ 900کلو میٹرکی رفتار سے پھیلتی ہوئی اُس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اﷲ کے رسولﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔(محمد رسول اللہﷺ۔ ڈاکٹر حمید اللہ) پھر اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور سیدنا عمر بن خطابؓ نے آگے بڑھایا اور سوبرس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسبِ ذیل اُمور سامنے آتے ہیں:
-1 امن و امان کا قیام
-2 تعلیم وتربیت کی سہولتیں
-3 روزگار، سکونت اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی
قرآنِ حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اﷲ کا کنبہ ہیں۔ انسان فطرتاً مل جل کر رہنا چاہتا ہے۔ دُنیا اور دنیا کے تمام وسائل ہمارے فائدہ کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اس لئے صاف سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے۔ معلم کتاب و حکمتﷺ ان کی تشریح اور ان کی تفصیل بیان فرما چکے ہیں۔ آےئے!دیکھیں بلدیاتی نظام سے متعلق ہماری رہنمائی کے لیے سیرت نبویﷺ سے کیا اصول ملتے ہیں۔
شہری نظام کے بارے میں اﷲ کے آخری رسول حضرت محمد رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو ایک ہدایت دی کہ..... اپنے شہروں کو بہت پھیلنے نہ دینا!.....



Rehabilitation آبادکاری
ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب اُمڈ پڑا تھا اورآخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔(صحیح بخاری۔ابواب ہجرات) ان نوواردوں کی آبادکاری کے متعلق حضورپاکﷺ نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا تھا۔ اس منصوبہ کی جزئیات کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اﷲﷺ نے نوآبادی (کالونائزیشن) اور شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا۔ نوواردوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا۔ پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آکر جمع ہورہے تھے۔ ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس اُبھرے، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں..... جیسا کہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے..... رسول کریمﷺ کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے۔ جدید شہروں میں آبادی کے دباؤ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبیﷺ سے ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالتمآبﷺ نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحتمند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، رُوحانی بالیدگی، ذہنی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشوونما کا سبب بن سکے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیا م کے بعددارالخلافہ کی تعمیر کے لئے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لئے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیا تھا۔ مسجد اور ازواجِ مطہراتؓ کے لئے مکانات بن جانے کے ساتھ دارالخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔ دوسرے مرحلہ کا آغاز نو وارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلہ جاتی منصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ لگ گیا۔
مدینۃ الرسول، ایک لحاظ سے ’’مہاجر بستی‘‘ تھی۔ گوسارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔(طبقات ابن سعد) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کا سلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآبﷺ ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے۔ عوالی میں رہنے والے بنو سلمہ کے قبیلے نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپﷺ نے اسے نامنظور کردیا اور انہیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی۔ ریاست کی نوآبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اﷲ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لُٹے پٹے، بے سرو سامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی سرکاری طور پر کیا جاتا۔ بعد ازاں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یا مکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا۔ گویا مہاجرین کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کے سپرد تھی اور اسلامی حکومت اس بہت بھاری ذمہ داری سے مالی عُسرت اور اقتصادی وسائل کے فقدان کے باوجود، خوش اسلوبی سے عہدہ برا ہوئی۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا۔ اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلے پر مشتمل ہوتا تو انہیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا..... تاآں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا.....
آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے، اولاً یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلے۔ مگر خیال ہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا جب کہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لئے عموماً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے۔ کنواروں کے لئے ایسے مکانات علیحدہ تھے اور شاید عیال داروں کے لیے علیحدہ۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا۔ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لئے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے۔ (ماخوذازادب المفرد۔ امام بخاری)
توسیع شہر: تعمیرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک تواترکے ساتھ جاری رہا۔ یہاں تک کہ بنی قینقاع کے اخراج 3ہجری کے بعد مکانات کی خاصی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ آجانے کے سبب رہائشی قلت بہت حد تک دُورہوگئی مگر یہ مسئلہ ختم نہ ہوا کیونکہ رہائشی سہولتوں کے مقابلے میں نواردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہورہاتھا اس لئے 2ہجری (بنی قریظہ کی فتح ) تک یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا۔ اس کے بعد اسلامی حکومت کے آمدنی کے وسائل بھی پیداہوگئے،مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی قدرے سنبھل گئی،یہودیوں کے بہت سے مکانات بھی مل گئے لہٰذا معاملہ کی سنگینی بڑی حد تک کم ہوگئی تاہم آبادکاری کا کام فتح مکہ اور اس کے بعد بھی جاری رہا۔ فتح کے ساتھ ہی چونکہ ہجرت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا اسلئے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ رُک گیا۔تاہم کئی لوگ بعدازفتح مکہ بھی مدینہ میںآکر آباد ہوئے اور حصول تعلیم وغیرہ کے لئے آنے والوں کا بھی تانتابندھارہا۔(عہد نبوی کا نظامِ تعلیم۔ڈاکٹر حمید اﷲ)
عہد نبویﷺ کے اواخرمیں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحان تک ، مشرق میں بقیع الفرقد تک ،اورشمال مشرق میں بنیساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا اور رسول اﷲﷺ نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا۔ شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضوراکرم ﷺ کا یہ اقدام زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جنہیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرے کاقریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہے، آپﷺ نے شہرِنو(مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوزنہ ہونے دیااور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد پانچ سو ہاتھ مقرر کی اورفرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑھ جائے تو نیا شہر بسائیں اورآپ ﷺنے اپنی زندگی میں ہی اس اصول پر عمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے ، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یا تو اور زمینوں میں منتشر کرنے کا حکم جاری کیا تاکہ اس طرح ایک طرف زرعی انقلاب بر پا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جا سکے۔ دوسرے یہ کہ قریظہ ونضیر کی مفتوحہ بستیوں یا جوفِمدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلادیا تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرت تخلیق کی جاسکے۔ اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالتمابﷺ نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔(نسائی: کتاب الصلوٰۃ)
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انہی زرّیں اصولوں پر جنہیں رسول اﷲ نے چودہ سوسال پہلے آزمایا تھا عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشارکی شدت کو کم کرنے میں ایک حد تک نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
مدینہ کی شہری ریاست :
موجودہ دور میں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں۔
-1شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کا بندوبست ، مارکیٹوں کی تعمیر ، رہائشی انتظامات۔
-2پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم
-3گندے پانی کی نکاسی ، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست
-4تعلیم ، علاج ، دیگر فلاحی اداروں ، کھیل کے میدانوں کاقیام۔
-5چمن بندی اور شہر کی خوب صورتی اور تفریح گاہوں کاانتظام۔
-6ان کاموں کے لئے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب۔
حضور پاکﷺ کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اُصول ملتے ہیں۔ جہاں تک محکمۂ احتساب کا تعلق ہے فارابی ، ماوردی اور طوسی اس کی موافقت میں ہیں۔ماوردی نے محکمۂ احتساب کی خصوصیا ت کے بارے میں لکھاہے کہ یہ محکمہ انصاف اور محکمہ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے۔ محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور بُرے کاموں کو روکے ۔قرآنی اصطلاح ، معروف کی تین قسمیں ہیں۔
-1حقوق اﷲ
-2حقوق العباد
-3وہ اعمال و افعال جن کا تعلق دونوں سے ہو۔
مدینۃ النبی میں یہ کام اﷲ کے رسول ﷺ خود انجام دیتے تھے۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ مدینے کے بازاروں میں نکلتے توجگہ جگہ رُک کرناپ تول کر پیمانے دیکھتے۔ چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے۔ عیب دار مال کی چھان بین کرتے۔گراں فروشی سے روکتے۔ استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے۔ اس ضمن میں سیدنا حضرت عمرؓ ، حضرت عبیدؓ بن رفاعہ، حضرت ابو سعید خدریؓ ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ،حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کا تعین کرتی ہیں۔
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں ، پُلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لئے اُن کی منصوبہ بندی کاکام ہوتاہے۔ بعض لوگ ذاتی اغراض کے لئے سڑکوں کوگھیر لیتے ہیں۔ بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑی کرلیتے ہیں۔ فقہ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں۔صحیح مسلم کی ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ’’اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی۔ اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی۔‘‘




حضور اکرم ﷺ نے سڑکوں پربیٹھنے ، تجاوزات کھڑی کرنے ،سڑکوں پرگندگی ڈالنے سے روکا ہے۔ آپﷺ نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے۔ سڑکوں پر سایہ دار درخت لگانے کا حکم ہے۔ ابو اللیث سمر قندی اپنے ایک فتوے میں لکھتے ہیں کہ ’’ کسی سمجھ دار آدمی کے لئے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستے پر تھوکے یا ناک صاف کرے یا کوئی ایسا کام کرے جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پاؤں خراب ہوجائیں۔ اسلام کا قانونِ حق آسائش اس با ت کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑ ک پر کوئی عمارت بنائی جائے۔ ‘‘ راستے پر تصرف کسی کام کے لئے جائز نہیں ۔ تجاوزات کھڑی کرنے اور ریڑے لگانے والے اگر راستہ روکیں تو حکم ہے کہ اُن سے مال نہ خریدا جائے۔
موجودہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ اس کے بارے میں تعلیمات نبوی ﷺ سے احکام ملتے ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے اﷲ کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔ آپ ﷺنے جانوروں تک کے لیے راستے کی آزادی برقرار رکھی۔ مدینے کی شہر ی مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنوئیں خرید کر کیا گیا ۔قبل از اسلام مدینے کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا۔ بیتالخلا کا اس زمانے میں رواج نہ تھا لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔
شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسانی کا سرکاری طورپر انتظام کیا گیا۔ مدینہ میں پینے کے لئے میٹھے پانی کے کنویں اور چشمے بمشکل دستیاب ہوتے ۔ حضرت عثمانؓ نے جو خود بھی مدینہ کی نو آبادی میں رہتے تھے آنحضور ﷺ کے حکم کے مطابق اہلیانِ مدینہ کے لئے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بیرِ رومہ خرید کر وقف کردیا۔ (صحیح بخاری: باب فضائل)
اسلام جسم وجان کی پاکیزگی اور ظاہر وباطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے۔ وضو ، طہارت ،غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں اور تکمیلی مراحل تھے۔ آپﷺ نے مسجدیں بنا کر وہاں طہارت خانے تعمیر کرنے کی ہدایت جاری کی۔ اسلام کے عمومی مزاج اور آپﷺ کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے۔ ہر مسجد کے ساتھ طہارت خانے تعمیر کیے گئے۔ (ابن ماجہ)
ہمسائے کے حقوق کے بارے میں رسول اکرمﷺ کے جو ارشادات ملتے ہیں اُن پر عملدرآمدسے انسانی معاشرے کے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک کی روایت ہے کہ’’ کوئی مسلمان ،مسلما ن نہیں ہے جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتاہے۔ ‘‘
اس ایک ار شاد مقدسہ میں صفائی ستھرائی، صحت ، شائستگی ، خوش خلقی ،صلح جوئی ،ہمدردی ،ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہشہری زندگی کے تمام ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہوسکتی ہے۔
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے۔رسول اﷲﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمادیا۔ گلی یا کوچے کی کم سے کم چوڑائی ۔ جھگڑاہوجانے کی صورت میں سات ہاتھ (ذارع) مقررکی۔(صحیح مسلم) جو فِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طورپر تنگ ہوتی تھیں اس لئے مدینہ میں بھی کوچے تنگ مگر سیدھے تھے۔ باوجود یہ کہ آپﷺ کا اور دیگر صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے مگر آپﷺ نے کشادہ مکانات کو پسند کیا اور فرمایا کہ خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہو۔ ( امام بخاری ۔ادب المفرد)
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے۔صفائی اور پاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے۔ گھر، گھرکے باہر کا ہر مقام، اپنے جسم ، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے۔ مسجدوں کوپاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کاحکم آیاہے۔ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجد نبوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تو اﷲ کے رسول ﷺ اپنے ہاتھوں سے اُ س جگہ کو صاف کرتے تھے۔ وضو اور غسل کا نظام، غلاظت سے صفائی کے احکام ، چوپال ،کھلیانوں کی جگہ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک وصاف رکھنا حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق بھی ہے اور یہ شائستگی کا اظہار بھی ہے۔
حفظانِ صحت ہی کے اصولوں کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص ہونے پرزور دیا گیا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے۔ پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام اس عنوان کے تحت بھی آتے ہیں۔ اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں۔ ان میں وباؤں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور بروقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے۔ مکانات ہودار اور روشن رکھنے کے احکام اسلام میں موجود ہیں۔
سایہ ،چمن بندی، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ مثلا سورۂ عبس میں ارشادربانی ہے کہ’’ ہم نے (زمین )میں سے انا ج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے لئے بنایا ہے۔‘‘(سورۂ عبس:آیت 32-27)
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتاتھا اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے۔ رسالتمآبﷺ نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے۔مسجد النبیﷺ کے دروازے کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتاہے جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا۔ مسجد النبیﷺ کے بڑے دروازے کے بالمقابل حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کا وسیع وشاداب باغ بیرحاء تھا جہاں حضورپاکﷺ اکثر تشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری، نسائی، ابن ماجہ)
مدینہ میں نکاس�ئ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا کیونکہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا۔ اگر کہیں سے کوئی پہاڑی ندی نالہ گزرتاتھا تووہاں پُشتے باندھ کر عمارا ت اور تعمیرات کو محفوظ بنادیاگیا تھا۔

ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید وفروخت کی سہولت کے لئے علیحدہ منڈی یا بازار بنایا گیا۔ خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنی قینقاع کے اخراج (3ہجری) کے بعد قائم ہوئی ہوگی کیونکہ اس سے پیشتر عبدالرحمان بن عوف اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے۔(صحیح مسلم)
مدینہ کا بازار مسجد النبیﷺ سے کچھ زیادہ فاصلے پرنہ تھا۔ بازار خاصا وسیع وعریض تھااور اخیر عہد نبویﷺ میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالتمآب ﷺ نے زبردست کوششیں کیں جس میں سب سے اہم آپﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ’’ مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے۔‘‘ (فتوح البلدان ۔ بلاذری)
زمانہ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجارت میں بڑی رکاوٹیں تھیں۔ آپﷺ نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دوررَس نتائج کا حامل تھا، اور دراصل اس طرح آپﷺ نے صرف چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی بلکہ جزیرۃ العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں،مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات اور برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزادتجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نا صرف اقوام ملل کے لئے بلکہ پوری نوعِ بشر کی مادی ترقی کے لئے ضروری ہے جس کے ذریعے بین الاقوامی طورپر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کو فائدہ بھی پہنچایا جاسکتا ہے اور اقوام بھی خوشحال بن سکتی ہیں۔
تعلیمی اداروں کا قیام : حضورپاکﷺ نے منجملہ اور باتوں کے تعلیم پر بڑا زور دیا ہے۔تاریخ اسلام میں پہلا نصابِ تعلیم رسول اﷲﷺنے ہی ترتیب دیا۔اﷲ کے رسول ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بنا کر اسلام کی پہلی اقامتی درسگاہ کی بنیاد ڈالی تھی جہاں آپﷺ خود درس دیا کرتے تھے۔ اپنے دورخلافت میں حضرت عمرؓ نے ہر مسجد میں مکتب قائم کرکے اُن کی نگہداشت و اخراجات کا ذمہ دار بھی حکومت کو بنایا۔آج دورجدید میں شہری حکومت کی ذمہ داریوں میں تعلیم کی اشاعت اور فنون کی تربیت بھی شامل ہے۔
اﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ جہاں سے ملے لے لیں۔

conversion Table

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانے

عہدِ نبوی ﷺ کے عربی تجارتی پیمانے
ایک اوقیہ = 40 درھم
ایک اوقیہ = 1/12 رطل
ایک رطل = 12 اوقیہ
دس درہم = 7 مثقال
ایک نواۃ = 5 درھم
ایک شیعرہ = 1/8 درھم
ایک دانق = 1/6 درہم
ایک درہم = 8 شیعرہ
ایک درہم = 6 دانق


عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانے کا جدید متبادل
ایک درہم = 1/8 اونس = 3٫543گرام
ایک دینار = 3٫5 ماشہ
ایک رطل = 5 شامی پونڈ = 15٫75 مصری اونس
ایک اوقیہ = ڈیڑھ اونس


جدید متبادل پیمانے
ایک اونس = 28٫35 گرام
ایک پونڈ = 16 اونس = 453٫6 گرام
ایک اوقیہ = 40 درھم
ایک اوقیہ = 40 درھم


عہدِ نبوی ﷺ کے رومی پیمانہ
سونے کا مثقال = 16 ماشہ
سونے کا مثقال = چاندی کی 15 سونے کا مثقال
چاندی کا درہم = 1/4 مثقال
چاندی کا 2 درہم = 1/2 مثقال
چاندی کا 4 درہم = 1 مثقال
تانبہ کے دینار(اسّاریون) = 1/16 دینار
تانبہ کے دینار(پستون) = 1/4 دینار
تانبہ کے دینار(قدرنتس) = 1/2 دینار


عہدِ نبوی ﷺ کے رومی، عبرانی، یونانی و فارسی پیمانہ
پیجس (یونانی) = 1 گز
پرسایا باع (یونانی) = 6 انچ
غلوہ (یونانی) = 200 گز
سکونس (یونانی) = 30 غلوہ
لطیرہ (یونانی) = 8 انچ
درہم (یونانی) = نیم مثقال
میطرس (یونانی) = بت
خینکس (یونانی) = 2 سعا
صامد (یونانی) = ایک بیگھا = نصف ایکڑ

میل (رومی) = 1618 گز
شاپش (عبرانی) = تہائی 1/3
اردب (فارسی) = 24 سیر


عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ پیمائش
اصبع = ایک انگل = 3/4 انچ
تومح = 4 انگل = 3 انچ
زارت = 4 ضرب 4 ضرب 4 انگل = 9 انچ
اَمَّہ = ایک ہاتھ = 18 انچ
قانِہ = سرکنڈہ = 3 گز


عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ اوزان
جیرہ = جیرہ = 6 رتی = 1/20 مثقال
روبع = چوتھائی مثقال = پونے 3 ماشہ
باقع = نصف مثقال = ساڑھے 7 ماشہ
شاقل = مثقال = سوا تولہ
مانہ = منا = ساڑھے 62 تولہ
کِکّار = قنطار = 47 سیر معہ سیر کا 7/8 واں حصّہ

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ گنجائش
لوج = 6 چھٹانک
قاب = ڈیڑھ سیر
عومر = 2 سیر معہ سیر کا 7/10 واں حصّہ
سعا = 9 سیر = 6 قاب
ایفہ = 27 سیر = 3 سعا
اومر = 270 سیر = 10ایفہ
لاتک = 1350 سیر = 50 اومر


عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ گنجائش مائع
لوج = 6 چھٹانک
ہین = ساڑھی 4 سیر = 12 لوج
بت = 27 سیر = 6 ہین
کرّ = 270 سیر = 10 بت

Price Rate

عہدِ نبوی ﷺ میں اشیاء کی قیمت



عرب میں اشیاء کی قیمت: بحوالہ پیغمبرِ اسلام- کونسٹان ویرژیل جارج
عام اونٹ کی قیمت: 400 درہم
عام غلام کی قیمت: کم سے کم 150 درہم
مضبوط غلام کی قیمت: 800 درہم تک
ایک بھیڑ کی قیمت: 40 درہم
ایک بکری کی قیمت: 25 درہم
ایک نیزے کی قیمت: 4 درہم
اونٹ پر باندھنے والے کجاوہ کی قیمت: 16 درہم
ایک کلنگ (کدال) کی قیمت: 6 درہم
ایک روٹی کی قیمت: 1/6 درہم
چھ روٹی کی قیمت: 1 درہم


عرب میں اشیاء کی قیمت: بحوالہ احادیث نبوی
ایک بکری کی قیمت: نصف سے 1 دینار -بخاری کتاب المعجزات
اونٹ پر باندھنے والے کجاوہ کی قیمت: 13 درہم -بخاری باب مناقبت المہاجرین
قبطی (مصری) غلام کی قیمت: 800 درہم - بخاری کتاب الاکراہ
ایک خادمہ کی قیمت: 19 اوقیہ (360 درہم) - بخاری کتاب البیوع
رسول اللہ کے ایک گھوڑے (سبک) کی قیمت: 400 درہم - تاریخ طبری
ایک ڈھال کی قیمت: 3 درہم - بخاری کتاب الحدود


عہدِ نبوی ﷺ میں ملازم کی اجرت - بحوالہ اسلام کے معاشی نظریے - ڈاکٹر محمد یوسف الدین
گلہ بانی، بکریاں ریوڑ چرانے کی اجرت فی جانور 1 قیراط (یعنی 20 جانور 1 دینار) ہوتی تھی - بحوالہ بخاری، ابن ماجہ
ہجرت حبشہ کے وقت جدّہ سے حبشہ جہاز کا کرایہ فی سوار کرایہ نصف دینارتھا - بحوالہ تاریخ طبری، طبقات ابن سعد
حضرت بلال کو 5 اوقیہ (200 درہم) میں خریدا گیا - تاریخ طبری
حضور کی اونٹنی قصوہ کو 400 درہم میں خریدا گیا - تاریخ طبری