tag:blogger.com,1999:blog-22489312361277025392024-02-06T18:36:36.522-08:00عہدِ نبوی ﷺمحمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.comBlogger23125tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-29210662569271247402010-06-15T09:34:00.000-07:002010-06-16T12:18:30.585-07:00International Relation<div style="text-align: right;">عہدِ نبوی ﷺ کے بین الاقوامی تعلقات<br />بحوالہ: ڈاکٹر حمید اللہ<br />پیغمبراسلامﷺ نے صر ف دفاع کی خاطر اور وہ بھی بڑے تامل کے ساتھ ہتھیار اٹھائے تھے۔ جب اسلام کے پرانے دشمنوں کی احمقانہ معاندت ختم ہوگئی تو آپﷺ کا صرف ایک ہی کام اور ایک ہی مقصد رہ گیا کہ عرب اور دیگرممالک میں پرامن طورپر اسلام کی تبلیغ کی جائے۔<br />حدیبیہ سے واپسی کے بعد جب آپﷺ اہل مکہ سے پُرامن بقائے باہمی پر مفاہمت میں کامیاب رہے۔ آپﷺنے بیرونی ممالک میں قاصد روانہ کرنا شروع کردیے۔ 7ہجری میں انھوں نے بازنطینی فرمانروا، والیِ مصر، شاہِ حبشہ اور شاہِ ایران کے نام مراسلے ارسال کیے جن میں ان فرمانرواؤں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ان ممالک کی طرف بھیجنے کے لیے نبیﷺ نے ایسے افراد کا انتخاب کیا جو پہلے ہی ان ممالک کا دورہ کرچکے تھے اور وہاں کی زبان کسی حد سمجھ سکتے تھے۔<br />رسول اﷲ ﷺ نے جن فرمانرواؤں کو خطوط ارسال کیے ان میں ہرقل معمولی گھرانے کا فردتھاجو قسطنطنیہ میں ایک فوجی انقلاب کے نتیجہ میں برسرِ اقتدار آیاتھا۔ اس نے انہی دنوں ایرانیوں پر زبردست فتح حاصل کی تھی اور انہیں اپنی مملکت کے ان حصوں سے ماربھگایاتھا جس پر انہوں نے قبضہ کررکھاتھا۔ فطری طورپر شہنشاہ ہرقل، عرب کے کسی باشندے کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہوسکتاتھا جبکہ عرب کا ایک حصہ خود اس کی سلطنت کی ایک نو آبادی تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے ہرقل نے اپنے ایک سردار کو محض اس لیے پھانسی دے دی تھی کہ اس نے اسلام قبول کرلیاتھا۔ اس نے مسلم سفیر کو قتل کرنے والے گورنر کو پناہ دی جس نے بین الاقوامی قوانین اور اصول وقواعد کی صریح خلاف ورزی کی تھی۔ جب پیغمبر نے سفیر کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے فوجی مہم موتہ بھیجی تو ہرقل نے ایک زبردست فوج کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔اس کا رویّہ ایک بیاصول ظالم اورجابر بادشاہ کا تھا۔<br />ایرانیوں اور بازنطینیوں دونوں نے عرب کے اندر اور گرد ونواح میں اپنی نوآبادیاں قائم کررکھی تھیں۔ انہوں نے عربوں کو غلام بناکررکھاہواتھااور وہ ان سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک کرتے تھے۔وہ عربوں کو کمتر نسل تصور کرتے تھے۔ رسول اﷲﷺ نے براہِ راست یونانیوں(رومیوں) سے رابطہ پیداکرنے سے قبل ان عرب سرداروں سے رابطہ کا فیصلہ کیا۔<br />سینٹ پال کے دور میں عرب نا صرف دور دور تک آباد تھے بلکہ انہوں نے دمشق کے شمالی علاقہ میں چھوٹی موٹی سرداریاں بھی قائم کررکھی تھیں۔ اس وقت اس علاقے کا حکمران حارث (ارٹیس) نامی ایک شخص تھا۔ رسول اﷲﷺ کے دور میں اس علاقے میں عرب قبیلہ غسان آباد تھا جس نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ رسول اﷲﷺ نے اس قبیلہ کے مختلف سرداروں کے نام بھی خط بھجوائے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔<br />نبیﷺ نے پہلا خط حارث ابن شمیر کولکھا۔مگر اس نے رسول اﷲ ﷺ کی دعوت مسترد کردی۔جلدہی اس کا انتقال ہوگیا یہ 8ہجری کا واقعہ ہے۔ پھر اس کے جانشیین جبلہ الایہم کو بھی اسی طرح کاپیغام بھیجاگیا۔ اس کے قبولِاسلام کے بارے میں متضاد روایات ملتی ہیں۔ رسولِاﷲﷺ نے حاکم بصرہ کے نام بھی اسلام کا دعوت نامہ ارسال کیا۔ یہ خط حارث ابن عمیر الازدی لیکر گئے مگر عیسائی سردار شرجیل ابن عمر و الغسانی نے رسول اﷲ ﷺ کے سفیر کو گرفتار کرکے قتل کردیا۔ عیسائی سردار کایہ فعل تمام بینالاقوامی اصول وقواعد کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ رسول اﷲ ﷺ نے سفیر کے قتل کا تاوان طلب کیا اور مطالبہ کیا کہ مجرم کو سزادی جائے۔ لیکن شہنشاہ ہرقل نے مسلمانوں کی چھو ٹی سی مہم کے مقابلہ میں ایک لاکھ سپاہ پر مشتمل وہ فوج روانہ کردی جو اس نے ایران کی مہم کے لئے بھرتی کی تھی اور ابھی اسے فارغ نہیں کیا گیا تھا۔رسول اﷲﷺ نے اس مہم کے لئے تین ہزار افراد پر مشتمل فوج خشکی کے راستے اور کچھ کمک سمندر کے راستے بھجوائی تھی ، مسلم فوج کا ہرقل کی فوج سے موتہ کے مقام پر مقابلہ ہوا،مسلمان دشمن کی تعداد سے خائف نہیں تھے،جنگ شروع ہوئی مسلمانوں کے دوسینئر جرنیل ،کمانڈر انچیف ،زید بن حارثہؓ ( رسول اﷲﷺ کے لے پالک صاحبزادے) اور ان کے نائب جعفر الطیارؓ ابن ابو طالب(رسول اﷲﷺ کے عم زاد) شہید ہوگئے۔ اس کے بعدفوج نے خالد ابن ولید کو سپہسالار منتخب کیا۔ انہوں نے دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا اور اسلامی فوج کو بتدریج پیچھے ہٹالائے۔دشمن کو مسلم فوج کا تعاقب کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اسلامی فوج مدینہ میں وارد ہوئی جس کے بعد9ہجری میں رسول اﷲﷺ خود تیس ہزار افراد پر مشتمل فوج لیکر نکلے۔ راستے میں اسلامی فوج جس جگہ پڑاؤ ڈالتی، وہاں ایک مسجد تعمیر کردی جاتی۔آپﷺ نے پورے شمالی عرب اور جنوبی فلسطین پر مسلمانوں کی بالادستی قائم کرلی۔ اسلامی فوج نے دُومۃ الجندل ،مقنہ ، ایلہ ، جربا اور ازرُح پر قبضہ کرلیا۔ یہ تمام شہر باز نطینیوں نے خالی کردیے تھے۔ ان میں ایلہ کی بندرگاہ زبردست اہمیت کی حامل تھی۔ علاقہ کی عرب آبادی نے جوعیسائیت کوقبول کرچکی تھی، ظالم بازنطینیوں کے خلاف بغاوت کردی تھی، وہ روادارا ور اصول پرست مسلمانوں کے سائے میں زندگی بسر کرنے پر خوش تھے۔ ان علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ مستحکم ہوگیا اور اب رومی شہنشاہ ان میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔ تاہم ابھی اسلامی مملکت کی سرحدوں کی صورت حال مستحکم نہ تھی۔ چنانچہ ڈیڑھ سال بعد ایک اور فوجی مہم روانہ کی گئی۔ یہ فوج عین اس روز روانہ ہوئی جس روز رسولِاﷲﷺ کا وصال ہوا، اس فوج کو بھیجنے کا فیصلہ رسول اﷲﷺ نے کیا تھا۔ چنانچہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرؓ نے پیغمبرخداﷺ کا فیصلہ برقرار رکھا۔فوج کا کمانڈر اسامہؓ ا بن زید کومقرر کیا گیا۔اُسامہؓ کے والد حضرت زیدؓ جنگ موتہ میں اسلامی فوج کی کمان کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرچکے تھے۔ اس فوج نے اسلامی مملکت کی حدود کو مزید شمال میں وسعت دی اور جلدہی فلسطین مسلمانوں کے زیرِنگیں آگیا۔<br />عمان کے عرب گورنر کو بھی رسول اﷲ ﷺ نے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کرلیا مگر ہر قل کے حکم سے اسے قتل کر دیاگیا۔<br />مصر، سلطنتِ بازنطین کا ایک حصہ تھا جب ایرانیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے قبطیوں سے فیاضانہ سلوک کیا جو باز نطینی حکومت کے ’’مذہبی مظالم ‘‘ سے تنگ آچکے تھے۔ ایرانیوں نے قبطیوں میں سے ایک شخص کو ان کا حکمران بنادیا جسے مقوقس کا خطاب دیا گیا۔مقوقس کا لفظ ایرانی المخرج معلوم ہوتا ہے۔ ایرانیوں کو جب نینوا کے مقام پر ہرقل کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی تو وہ مصر بھی خالی کرنے پرمجبور ہوگئے۔ غالباً یہی دور تھا جب رسول اﷲﷺ نے قبطیوں کے سردار کو خط لکھا اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ قبطی سردار نے رسول اﷲﷺ کے خط کا نہایت مودّبانہ جواب دیا، تاہم مقوقس کے قبولِاسلام کا مقصد حاصل نہ ہوسکا۔مقوقس نے اسلامی سفیر کو متعدد تحائف دیے۔ رسول اﷲﷺ نے مقوقس کو جو خط لکھا تھا اس کا اصل مسودہ اب تک محفوظ ہے اور ان دونوں استنبول (ترکی) کے مشہور میوزیم توپ کاپی میں موجود ہے۔<br />حبشہ کا علاقہ یمن کے قریب تھا ظہور اسلام سے بہت پہلے مکہ سے حبشہ کے نہایت قریبی اقتصادی تعلقات قائم تھے۔ کہا جاتاہے کہ یہودی حکمران ذُونواس نے عیسائیوں پر مذہبی اختلاف کی بنا پر اتنے مظالم کیے کہ حبشہ کے عیسائیوں نے یمن پر حملہ کردیا اور اس پر قبضہ کرلیا۔ لیکن فاتح عیسائیوں کے جرنیلوں کے درمیان حسد ورقابت کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے گلے۔ اس خُونریزی اور جنگ وجدل کے بعدابرہہ حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن کا گورنربن گیا۔ وہ مذہب کے معاملے میں بڑا کٹراور ہٹ دھرم تھا۔ یہ وہی ابرہہ ہے جس نے کعبۃ اﷲ کو ڈھانے کے لیے مکہ پرحملہ کیا تھا کیونکہ وہ کعبہ کوعرب میں عیسائیت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصورکرتاتھا۔ حضوراکرم ﷺ نے مختلف حکمرانوں کوخط لکھے ان میں حبشہ کا شاہ نجاشی بھی شامل تھا۔ مسلمانوں سے نجاشی کے تعلقات اس خط سے بہت پہلے سے قائم تھے۔ حضورپاکﷺ کے اعلانِنبوتﷺ سے کوئی پانچ سال بعد مکہ میں چند اہل اسلام پر اتنے مظالم ڈھائے گئے کہ انہوں نے مادرِ وطن سے ہجرت کرکے سمندر پار کے ملک حبشہ میں پناہ لینے کافیصلہ کیا۔ اگلے سال اہل مکہ نے دو سفارتیں حبشہ بھیجیں تاکہ مسلمانوں کو حبشہ سے نکال کر اہل مکہ کے حوالے کیاجائے۔ مگردونوں سفارتیں ناکام رہیں۔ جب مکہ والوں کا دوسرا وفد حبشہ گیا تو رسول اﷲﷺ نے بھی اپنا ایک سفیر حبشہ بھیجا تاکہ اہل مکہ کی سازش کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اس دورکی حبشہ کی تاریخ معلوم نہیں ہوسکی، جس کے باعث یہ قطعی انداہ نہیں ہوسکتاکہ حبشہ کے جس شاہِنجاشی نے مکی مسلمانوں کو پناہ دی اور دس سال بعد جس نجاشی نے اہل مکہ کے دوسرے وفد سے ملاقات کی تھی وہ ایک شخصیت تھی یا دو مختلف افراد تھے۔قیاس کیا جاتاہے کہ یہ ایک ہی شخصیت تھی اور پیغمبرِ اسلام ﷺ سے اس کے تعلقات نہایت دوستانہ تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اﷲﷺ نے اسے خط لکھا تھا جس میں اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔(نبیﷺ کے اس خط کا اصل مسودہ اس وقت دمشق میں موجود ہے۔)کہاجاتاہے کہ شاہ نجاشی نے اسلام قبول کرلیا تھا تاہم وہ اپنی رعایا کو قبول اسلام کی ترغیب نہیں دے سکا تھا۔ نجاشی کا قبول اسلام اس حقیقت سے بھی ثابت ہوتاہے کہ امام بخاریؒ کے مطابق نجاشی کی وفات کی خبر ملنے پر رسول اﷲﷺ نے مدینہ میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا تھا۔رسول اﷲﷺنے شاہ نجاشی کے جانشین کو بھی خط لکھا تاہم اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔مگر حبشہ کے بہت سے شہری مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں شاہ نجاشی کا ایک بیٹا بھی شامل تھا۔ وہ بعد میں مدینہ آگیا اور رسول اﷲ ﷺ کے خاندان کے زیرِ کفالت فرد کی حیثیت سے یہیں سکونت اختیارکرلی۔<br />عرب میں حبشہ کے کئی شہری بھی ملتے ہیں۔ موذّنِرسول حضرت بلالؓ کو حبشی اسی بناپر کہا جاتاتھا کہ وہ حبشہ کے رہنے والے تھے۔<br />باز نطینی سلطنت کی طرح ایران نے بھی عرب میں نوآبادیاں قائم کررکھی تھیں۔ گو عربوں کے درمیان باہمی اختلافات تھے، وہ ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے مگر ان میں انا اور عزتِ نفس کا احساس بہت زیادہ تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ بہترین وفادار حلیف ثابت ہوئے چنانچہ بنو غسان باز نطینیوں کے نہایت وفادار حلیف تھے۔ اسی طرح حیرہ (موجودہ کوفہ)کے لوگوں کے ایران سے تعلقات تھے اور وہ ایران کے حلیف تھے۔ ایک وقت تھا کہ حیرہ کے حکمرانوں نے اپنے اطوار سے ایران کے شاہی خاندان میں اتنا اعتماد پیدا کرلیا کہ ولی عہد شہزادہ بہرام گورکو بچپن میں مدائن کے شاہی محل میں رکھنے کے بجائے حیرہ بھیج دیاگیا تاکہ یہاں اسکی پرورش اور تربیت کی جاسکے۔ لیکن بعدکی نسلوں کے زمانے میں صورتِحال بالکل بدل گئی۔ایک شہنشاہ ایران نے خواہش ظاہر کی کہ والیِ حیرہ کی بیٹی شاہی حرم میں بھیجی جائے۔ مگر حیرہ کے گورنر نے انکار دیا۔چنانچہ شہنشاہ نے گورنرکومدائن طلب کیا جہاں اسے قتل کردیاگیا ۔اس پر عربوں نے حکومت ایران کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا۔شہنشاہ ایران نے عربوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور حیرہ پرفوج کشی کردی۔ عربوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور شاہی فوج کو جنوبی عراق میں ذوقار کے مقام پر تہس نہس کردیا۔ یہ واقعہ انہیں دنوں رونما ہو جب کفارمکہ اور مسلمانوں کے درمیان جنگِ بدر لڑی گئی۔ رسول اﷲﷺ ایران کے آں جہانی شہنشاہ نوشیرواں کی عادلانہ حکومت کے معترف تھے لیکن وہ ایرانیوں کی آتش پرستی اور زرتشت کی طرف سے مذہب کے نام پر روارکھی جانے والی بدعتوں کے سخت خلاف تھے۔ہمیں اس صدائے باز گشت قرآن حکیم کی سورۂ روم میں بھی سنائی دیتی ہے۔ پیغمبر اسلامﷺکی مدینہ کو ہجرت سے قبل ایرانیوں نے باز نطینی سلطنت پر حملہ کرکے شام، فلسطین اور مصر پر قبضہ کرلیاتھا۔قرآن میں کہا گیا ہے ’’رومی (بازنطینی)ہمسایہ ممالک میں شکست سے دوچار ہوئے مگر چند سالوں کے لیے اور وہی فاتح ہوں گے۔‘‘ عیسائیوں کو نسبتاً مسلمانوں کے قریب تصور کیا جاتاتھا اور زرتشتی (ایرانی) کفار مکہ کے ہم مشرب تصورہوتے تھے۔<br />7ہجری میں جب پیغمبر اسلامﷺ نے خسرو پرویز کو اسلام کی دعوت دی اور اسے خط لکھا......اس خط کا اصل مسودہ ہم تک پہنچا ہے......یہ کہنامشکل ہے کہ آیا رسول اﷲﷺ کا یہ خط خسرو پرویز نے وصول کیاتھا، یا اس کے کسی جانشین کوملاتھا۔ کیونکہ بالکل انہیں دنوں ایرانیوں کو نینواکے مقام پر مکمل تباہی کا سامنا کرناپڑاتھا۔ شہنشاہِ ایران کو خوداس کے بیٹے نے قتل کردیا تھا اور پایۂتخت مدائن(تیسفُون)میں وارثانِ تخت جلد جلد بدل رہے تھے۔بہرحال! اسلامی سفیر سے نہایت توہین آمیز سلوک کیا گیا اور اسے بے عزت کرکے ایرانی دربار سے نکال دیا گیا۔ ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق ایران کی ایک ملکہ نے مدینہ میں ایک سفارت بھیجی۔ ایرانی سفیر تحفے لیکر رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا مقصد سابق شہنشاہ کی طرف سے مسلمانوں کو پہنچائی جانے والی اذیّت کا مداواکرناتھا۔ایران کی یہ ملکہ غالباً پُوران دُخت تھی جو مختصر عرصہ کے لئے تختِ ایران پر جلوہ گر رہی، وہ اس بات سے خوفزدہ تھی کہ عرب میں ایرانی نوآبادیات تختِ ایران کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔<br />یمن میں صورت حال خاص طورپر بڑی سنگین تھی۔ یمن ثقافتی اعتبا رسے نہایت ترقی یافتہ علاقہ تھا اور انتہائی شاندار ماضی کا حامل تھا۔یمن میں روم اور ایتھنز سے بھی پہلے مہذب حکومتیں قائم تھیں۔ رسول اﷲﷺ کے ظہورسے صرف ایک نسل قبل یمن میں عظیم الشان سلطنت قائم تھی جس کی حدود میں ناصرف پورا جزیرہ نما عرب بلکہ وہ وسیع علاقے بھی شامل تھے جو بعد میں باز نطینی اور ایرانی سلطنتوں کا حصہ بنے۔ اب یہی یمن ایرانیوں کی غلامی کے خلاف نبرد آزما تھا۔ یمنی ایرانیوں کی غلامیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے یمن میں آباد تمام ایرانیوں، ایرانی النسل حکام اور فوجیوں کو قتل کرنے کی سازشوں میں مصروف تھے۔اس موقع پر رسول اﷲﷺ کی طرف سے اہل یمن کو قبولِ اسلام کی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔پہلے خالدؓ ابن ولید اور پھر حضرت علیؓ کو اس علاقے میں بھیجاگیا۔چنانچہ جہاں یمن کے بہت سے قبائل آسانی سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے، وہاں نجران کے عیسائیوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرکے امن سے رہنے کو ترجیح دی۔یمن کا دانشمند ایرانی گورنر باذان بھی آتش پرستی سے توبہ کرکے حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ رسول اللہﷺنے باذان کو گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا اور کچھ عرصہ بعد جب وہ وفات پاگیا تو رسول اﷲﷺ نے اس کے بیٹے کو گورنر مقررکردیا۔ رسول اﷲﷺ کے اس اقدام سے یمن میں مقیم بہت سے ایرانیوں کو تحفظ کا احساس نصیب ہواہوگا۔ رسول اﷲ ﷺ نے یمن کی انتظامیہ کے لئے مدینہ سے بہت سے لوگوں کوبھیجا۔یہ سب لوگ نہایت پرہیز گار اور صالح مسلمان شمار ہوتے تھے اور ان میں بعض مثلاً ابو موسیٰ الاشعری، یمنی النسل تھے۔انہوں نے یمن میں بطور جج ،استاد ،ٹیکس کلکٹر اور عام انتظامی افسروں کی حیثیت میں نمایاں خدمات انجام دیں۔معاذابن جبل جن کی مسجد آج بھی قصبہ جند میں موجود ہے ،انسپکٹر جنرل تعلیم کے عہدے پرفائز کیے گئے۔انہوں نے یمن کے ایک ایک علاقے کا دورہ کیا اور ہرجگہ تعلیم کے انتظامات کیے۔ رسول اﷲﷺ نے چند فوجی دستے یمن کے اس بُت خانہ کو مسمار کرنے کے لیے بھیجے جسے کعبہ کا ہمسر تصورکیا جاتاتھا۔ جب اس بُت خانے کوگرایا گیا اور جب بُت شکنوں پر بُتوں کا کوئی غضب نازل نہ ہوا، تویمن کے سادہ لوح عوام کے دلوں میں موجود موہوم خدشات بھی دور ہوگئے۔ جلد ہی عملی طورپر پورا یمن اسلام لے آیا،صرف نجران کا عیسائی قبیلہ اور اکادُکا یہودی خاندان باقی رہ گئے جو اپنے اپنے مذہب پر قائم تھے۔<br />نجران کے عیسائی مذہبی معاملات میں بے حد منظم تھے۔ ظہورِ اسلام سے قبل وہاں غیر ملکی مبلغ تک آتے تھے۔ایسا ہی ایک مبلغ اٹلی کا گریگنتس تھاجس نے بنونجران میں مسیحیت کو راسخ پایا۔ یہودی بادشاہ ذونواس نے مذہبی اختلاف کی بنا پربنو نجران پر جو مظالم توڑے ان کی بنا پراپنے مذہب پر ان کا اعتقاد اور بھی راسخ ہوگیا۔ انہوں نے اپنا ایک وفد بھی مدینہ بھیجا جس کی قیادت ان کا بشپ اور اس کا نائب کررہے تھے، اس سے ظاہر ہو تاہے کہ نجران میں کلیسا کی مضبوط تنظیم قائم تھی۔ انہوں نے مدینہ میں عقائد پر بحث مباحثہ بھی کیا۔ رسول اﷲﷺ سے مذکرات کے دوران ان کی اجتماعی عبادت کا وقت ہوگیا۔ مذاکرات مسجد نبوی میں ہورہے تھے۔چنانچہ عیسائی وفد عبادت کے لیے واپس اپنے کیمپ میں جانا چاہتاتھا مگر رسول اﷲﷺ نے مہمان نوازی کے ارفع جذبہ کے تحت کہا’’ اگر آپ لوگ پسند کریں توآپ مسجد میں ہی عبادت کرسکتے ہیں‘‘۔ عبادت کے بعد عیسائی وفد نے پھر مذاکرات شروع کردئیے۔ رسولِاﷲﷺ نے ان کے سوالوں کے اطمینان بخش جواب دیے اور مزید کہا’’ اگر آپ کا اطمینان نہ ہوا ہو تو آیئے ہم خد اسے رجوع کرتے ہیں۔ آیئے ہم دونوں (فریق) اﷲ سے دعاکریں کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور ہم دونوں میں جوجھوٹا ہو اس پر، اس کے خاندان اور بال بچوں پر اپنا غضب نازل کرے۔‘‘(دیکھیے قرآن سورۂ آل عمران:21)اس پر عیسائی وفد نے غورکرنے کی مہلت مانگی ، انہوں نے تنہائی میں باہم مشورہ کیا۔ انہوں نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے سوچا’’ اگر محمد(ﷺ)واقعی اﷲ کے رسول ہیں تو ان کی بددعا ہمیں دونوں جہانوں میں تباہ کرکے رکھ دے گی۔بہتر ہے کہ ان سے معاہدہ صلح کرلیاجائے۔ چنانچہ انہوں نے رضاکارانہ طورپر مسلم حکومت کی بالادستی تسلیم کرلی اور رسول اﷲﷺ سے تحریری معاہدہ کرلیا۔ اس معاہدہ کے تحت نجران کے عیسائیوں کو انتظامی اور مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی گئی۔ رسول اﷲﷺ نے حکم دیا کہ نجران کے عیسائی قرضوں پر سُود ادا نہ کریں بلکہ صرف اصل زر ہی اداکریں۔ فطری طورپر رسول اﷲﷺ نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ بھی مستقبل میں قرضوں پر سُود وصول نہ کریں۔ (یہ تحریری معاہدہ بھی اب تک محفوظ ہے۔)<br />یمن کے متعدد دوسرے قبائل نے بھی اپنے وفد مدینہ بھیجے اور اسلام قبول کیا۔یمن کا وسیع وعریض علاقہ تین سال کے اندر کسی جنگ کے بغیر اسلامی سلطنت کے زیرِ نگیں آگیا۔<br />عمان عرب کے جنوب مشرق میں ایک ریاست تھی جہاں جلندیٰ کے دوبیٹے جعفر اور عبد مشترکہ طورپرحکومت کرتے تھے۔ رسول اﷲﷺ کی دعوت پر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ چنانچہ رسول اﷲﷺ نے اپنے وعدہ کے مطابق دونوں کو عمان کی حکومت پر برقراررکھا۔ اس طرح پیغمبر اسلام ﷺ نے یہ اشارہ بھی دے دیا کہ اسلام میں مشترکہ حکومت رَواہے، تاہم رسول اﷲﷺ نے عمان میں اپنا ایک نمائندہ مقررکردیا جو مسلمانوں کی تعلیم وغیرہ کی نگرانی کرتا تھا۔<br />عمان کا علاقہ اقتصادی لحاظ سے بڑا اہم تھا اس کی بینالاقوامی بندرگاہیں اور وہاں کے تجارتی میلے اسلامی مملکت کے لئے وقار اور قوت کا باعث بنے۔<br />عبدالقیسکا قبیلہ جعفرکی حکومت کے تحت نہ تھا بلکہ آزاد تھا کیونکہ انہوں نے اپنا وفد الگ سے رسول اﷲﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔ جس نے مدینہ سے پیغمبراسلامﷺ سے براہ راست مذاکرات کیے۔ وفد کے ارکان یہ جان کر ششدر رہ گئے کہ رسول اﷲﷺ ان کے ملک کا وسیع دورہ کرچکے ہیں اور (ظہور اسلام سے قبل) کافی عرصہ عمان میں گزارچکے ہیں۔رسول اﷲﷺ عمان کے بہت سے لو گوں کوذاتی طورپر جانتے تھے انہوں نے اہل وفد سے عمان کی تازہ خبریں بھی دریافت کیں۔بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔<br />دبا کا علاقہ زبردست اقتصادی اہمیت کا حامل تھا۔ دبا اور مقشّر کے مقامات پر سالانہ تجارتی میلے منعقد ہو تے تھے۔جن میں کئی ممالک کے تجّار شریک ہوتے۔ دبا عرب کی دوبڑی بندرگاہوں میں سے ایک تھی۔ اس کے تجارتی میلہ میں عرب کے کونے کونے سے ہی نہیں بلکہ چینی ،ہندی ، سندھی اور مشرق ومغرب سے تاجر اپنا مالِتجارت لیکر شریک ہوتے تھے‘‘۔<br />جب یہ علاقہ غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوگیا تو رسول اﷲﷺ نے دبا کا الگ گورنر مقرر کیا۔ یہ گورنر دبا کا رہنے والا ایک مسلمان تھا۔ اسکے فرائض میں دبا کی بندرگاہ، شہر اور منڈی کی دیکھ بھال شامل تھی۔<br />موجودہ بحرین جو خلیج عرب وفارس میں جزیرہ عرب کے مشرق میں واقع ہے ان دنوں اُوال کہلاتاہے۔ ان دنوں جس علاقے کو بحرین (بحران) کہتے تھے (بحرین کا لغوی ترجمہ دوسمندرہے) وہ سعودی عرب کا موجودہ ضلع الحساء ہے جو سعودی عرب کا ایک حصہ ہے۔غالباًظہورِ اسلام کے وقت اس علاقے میں موجود قطر بھی شامل تھا۔ قطر خلیج کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے اور یوں دوسمندروں کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ بہرحال! اس علاقے(بحران یا بحرین) کے عرب گورنر المنذر ابن سادہ نے اسلام قبول کرلیا۔ وہ اسلامی حکومت کا نہایت پرجوش منتظم ثابت ہوا۔ تاریخ میں رسول اﷲﷺ کے نام پراس کے نصف درجن سے زائد خطوط کا ذکر آتاہے ان میں اک خط کا اصل ہم تک پہنچا ہے۔ یہ خط پہلی باربرلن کے ایک پبلشرZDMG نے شائع کیاتھا۔<br />شمال مشرقی عرب کے قبیلہ بنو تمیم نے نہایت آسانی سے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے مزید شمال میں جنوبی عراق کا علاقہ بھی عربوں کا گہوارہ تھا ۔اس علاقے میں حیرہ(موجودہ کوفہ) کی ریاست سمیت عرب قبائل آباد تھے ۔ایرانی حکومت کی جنوبی اور مشرقی عرب میں جو نوآبادیات تھیں ان پر دارلحکومت مدائن کے قُرب وجوار کی آبادیوں کی نسبت حکومت کی گرفت کمزور تھی تاہم حیرہ کے حکمران قبیلہ بنولخم کے متعدد ذیلی قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔ رسول اﷲﷺ کی طرف سے جو اسناد فراہم کی گئیں تاریخ میں ان کا ذکر ملتاہے۔<br />حیرہ(کوفہ) کے جنوب مشرق میں سماوہ کا علاقہ ہے۔ رسول اﷲﷺ کے ایک خط کا ذکر ملتاہے جو حضورﷺنے سماوہ کے فرمانروا اُنفاثہ الدیالی کے نام لکھا تھا تاہم اس خط کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ یہ بادشاہ بھی عربیالنسل تھا اور اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ اس نے ایرانیوں کی باجگزاری سے نجات پانے اور آزادی حاصل کرنے کے لئے اسلام قبول کرلیا ہو، تاہم اس سلسلے میں کوئی یقینی بات کہنا ممکن نہیں۔<br />کیا رسولِاکرمﷺ کے ہندوستان سے کوئی تعلقات تھے؟ اس ضمن میں کچھ یقین سے تو نہیں کہا سکتا لیکن اسے ناممکن بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عر ب تجار ظہورِاسلام سے قبل ہی سندھ اور مالا بار کی بندرگاہوں پر بکثرت آتے جا تے تھے۔ ہندی تاجر بھی جنوب مشرقی عرب کی بین الاقوامی بندرگاہ دبا کے تجارتی میلے میں شرکت کرتے تھے(دیکھیے ابن حبیب کی المحبرّ، صفحہ625) اس امر کا بھی قومی امکان ہے کہ ہندی تاجر یمن بھی جاتے تھے(دیکھیے ابن ہشام صفحہ265) کیونکہ یمن کے حکمران سیف ابن ذی یزن نے ایک بار ایرانی شہنشاہ کواطلاع دی کہ اس کے ملک پر ’’.کوّوں‘‘ نے قبضہ جمالیا ہے اور اس کی امداد کی جائے۔ ’’کون سے کوّے؟‘‘کسریٰ نے وضاحت طلب کی ’’یہ ہندی کوّے ہیں یاحبشہ سے آئے ہیں؟‘‘شہنشاہِ ایران کے ذہن میں یہ سوال آہی نہیں سکتاتھا اگر یمن اور ہندکے درمیان مستحکم تعلقات نہ ہوتے..... جہاں تک دبا کاتعلق ہے رسول پاکﷺ خود وہاں جا چکے تھے(دیکھیے ابن حنبلؒ جلد 4،صفحہ206) ’’میں نے تمہارے ملک کا وسیع دورہ کیاہے‘‘ مصنف رسول اﷲ ﷺ کی دو احادیث کا تذکرہ کرتاہے جن کے مطابق رسول اﷲﷺ نے مشقّر اوربعض دوسرے علاقوں کا نام لیا جہاں کا وہ سفرکرچکے تھے)چنانچہ یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں کہ جب یمن کے قبیلہ بل حارث کا وفد مدینہ گیا اور رسول اﷲﷺ نے پوچھا ’’یہ کون لوگ ہیں جو ہندی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ (دیکھیے ابن ہشام صفحہ960 ۔ابنِسعد 2/1،صفحہ72، نسائی 41/25)۔ ابن حنبلؒ (229-6) کے مطابق ابوہریرہؓ جو یمنی النسل تھے اکثر کہا کرتے تھے ’’رسول اﷲﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ ہندوستان کی طرف ایک مہم بھیجی جائے گی اگر میں وہاں (ہندمیں) ہلاک ہوجاؤں تو میں بہترین شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں صحیح وسالم واپس آجاؤں تو میں وہی آزاد شدہ غلام ابوہریرہؓ رہوں گا۔ رسول پاک ﷺ سے ایک حدیث بھی منسوب کی جاتی ہے ،فر مایا’’مجھے ہندوستان کی طرف سے تازہ ہوا آتی ہے‘‘۔<br />رسول اﷲﷺ کی زندگی میں صرف ہندی لوگوں کا ہی نہیں ان کے مذہب کا بھی ذکر آیاتھا۔ قدیم مسلم مورخ عبدالکریم الجیلی اور دور حاضر کے پروفیسر مولانا مناظر احسن گیلانی نے بھی اس کا ذکر کیاہے۔<br />میں اس تعارف کو متبحّر عالم مولانا غلام آزاد بلگرامی (دیکھیے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام) کی دو تصانیف اول ان کی سوانحی لُغت ’’ سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان ’’ کا مقدمہ اور دوسری ’’شمامۃ العنبر فی ماوردعن الہندعن سید البشر‘‘ کے ذکر پر ختم کرتاہوں۔<br />ہندوستان کے جنوب مغربی ساحلی علاقہ مالابار میںیہ روایت مشہور ہے کہ اس علاقہ کے ایک بادشاہ چکرورتی فرما س نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھاتھا ۔یہ رسول اﷲﷺ کا معجزہ تھا جو مکہ مکرمہ میں ظہور پذیر ہوا، بادشاہ چکر ورتی فرماس نے اس سلسلے میں جب تحقیقات کیں تو اسے علم ہوا کہ عرب میں ایک پیغمبر کے ظہور کی پیشگوئیاں موجودہیں۔ اورشق القمر کا مطلب یہ ہے کہ وہ پیغمبرِ خدا ظاہر ہوچکاہے۔چنانچہ اس نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقررکیا اور خو د رسول اﷲﷺ سے ملاقات کے لئے عرب روانہ ہوگیا۔ اس نے رسول اﷲﷺ کے رُوبرو اسلام قبول کیا اور پھر ان کے حکم پرواپس ہندروانہ ہوگیا۔ راستے میںیمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوگیا۔یہاں آج بھی ’’ہندی بادشاہ‘‘ کامزار مرجع خاص عوام ہے۔ انڈیا آفس لائبریری (لندن)میں ایک پرانا مسودہ (نمبر، عربی2807، ص۔173-152) ہے جس میں اس کی تفصیل درج ہے۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’’تحفہ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘‘ میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے( اس کتاب کا پرتگیزی ترجمہ انگریزی سے کہیں بہتر ہے مگر اس کا اردو ترجمہ نا مکمل ہے۔)<br />ترکی کے لوگوں کے بارے میں توبہت ہی کم مواد موجود ہے۔ علامہ بلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف (485-1) میں روایت کرتے ہیں کہ کہ اسلام کی پہلی شہید خاتون سمیہّ عمار ابن یاسر کی والدہ تھیں۔انہیں ابوجہل نے شہید کیاتھا۔ انکا اصل نام پامیخ تھا اور ان کا تعلق ایران کے علاقہ کسگر سے تھا۔پامیخ کو جدید ترکی میں ’’پاموک‘‘ کہتے ہٰں جس کے لغوی معنی کپاس کے ہیں۔اور یہ کسی ترک خاتون کانام ہی ہوسکتاہے۔ خد ااس خاتون کے درجات بلندکرے۔ ہندوستان کی طرح ترکی میں بھی ایک شخص مقلاب ابن ملکان الخوارزمی گزراہے جس نے یکے از صحابہؓ رسول ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔(دیکھیے ابن حجر،اصابہ۔2126)<br />چین کے بارے میں حضور اکرم کی ایک معروف حدیث ’’علم حاصل کرو خواہ اس کیلئے چین جانا پڑے‘‘ یہ یقین کرنے کی کافی وجوہ موجود ہیں کہ رسول اﷲﷺ کی چینیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ حضور اکرم ﷺ نہ صرف ان کی استقامت سے متاثر ہوئے کہ وہ کئی ماہ تک سمندر میں سفر کرکے آئے تھے بلکہ ان کی مصنوعات کی عمدگی نے بھی رسول اﷲﷺ کو متاثرکیاتھا۔ ایک طرف تو مسعودی لکھتے ہیں(دیکھیے علامہ مسعودی کی ’’مروج الذہب‘‘308-1) کہ چینی ظہورِ اسلام سے قبل بڑی بڑی کشتیوں میں بحران (بحرین) اور عمان آتے تھے اور دوسری طرف ابن حبیب دبا کے تجارتی میلہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ یہ (دبا) عرب کی دوبڑی بندرگاہوں میں سے ایک تھی اور اس کے سالانہ تجارتی میلے میں ہند، سندھ،چین اور مشرق ومغرب سے تجار آتے تھے‘‘۔<br />چینی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے شاہِ چین کے دربار میں سفیر بھیجا تھا اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ اس سفیر کا نام ابوعبیدہؓ تھا۔ وہ بعد میں دوبارہ چین گئے اور اسی جگہ ان کا انتقال ہوگیا۔ان کا مقبرہ سنگان فومیں ہے۔ (ان کے مقبرے میں تحریروں کے سلسلے میں ملاحظہ کیجیے وین لینگ وُوکی ’’مہذہبی کتبات‘‘ پیکنگ 1957، اور بروم مارشل کی ’’چین میں اسلام‘‘ ص۔90-83-66)</div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-21016463146069233152009-11-01T12:07:00.001-08:002010-06-16T12:17:42.107-07:00civic system<span style="font-size:180%;">عہد نبوی کا شہری نظام</span><br /><div style="text-align: right;"><br /><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiMAp_kUEZ4HXGLT8f8s5K89zlf-UMp-syoW36p2FGB9cbiMvjlpKpkBvjPs9KBP-SfHMxTj6ef6i6eovMwe6RaKsbU9EpL9KtW9Rz9H-gU6Y-wClAuD1PEyiYREBWWqno19BlE-PcED3c/s1600/civic2.gif"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 380px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiMAp_kUEZ4HXGLT8f8s5K89zlf-UMp-syoW36p2FGB9cbiMvjlpKpkBvjPs9KBP-SfHMxTj6ef6i6eovMwe6RaKsbU9EpL9KtW9Rz9H-gU6Y-wClAuD1PEyiYREBWWqno19BlE-PcED3c/s400/civic2.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5483452332427078562" border="0" /></a><br /><br /><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZrsGclnE8ROQquBMImI9Be4Prr_RA6M9gzVj0wXLKU_4l-VN6RywCj9a5s32NUUzN1RB-tFkpolgH8lhLREjoMoHYesggu-KCsLng0mXgyoiBwH-XTAPv0ZK47L6qYG4esmG534D2sTA/s1600/civic.gif"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 380px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZrsGclnE8ROQquBMImI9Be4Prr_RA6M9gzVj0wXLKU_4l-VN6RywCj9a5s32NUUzN1RB-tFkpolgH8lhLREjoMoHYesggu-KCsLng0mXgyoiBwH-XTAPv0ZK47L6qYG4esmG534D2sTA/s400/civic.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5483452325648516050" border="0" /></a><br />مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرکے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق و شام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن و حضر موت تک، اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیجِ فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور عملی طور سے پورے جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی۔<br />اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم و نسق عرب قبائلی روایات پر قائم و استوار تھا تاہم جلد ہی وہ ایک ملکگیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ عربوں کے لئے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے۔ یہ سیاسی اکائیاں آزاد و خود مختار ہوتی تھیں جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں مسلسل سیاسی چپقلش، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہِدار تھیں۔ عربوں میں نا صرف مرکزیت کا فقدان تھا بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ وہ کسی ’’غیر‘‘ کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ رسول اکرمﷺ کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپ نے مرکزیت دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ’’قبیلہ یا خون‘‘ کے بجائے ’’اسلام یا دین‘‘ معاشرہ و حکومت کی اساس تھا۔ اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا۔ جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لئے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالا دستی تسلیم کرنی ضروری تھی۔<br />اﷲ کے رسولﷺ نے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھا تو آپﷺ کی زبانِ مبارک پر سورۂ بنی اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے رہتی تھی:<br />ترجمہ: ’’اے اﷲ! (نئی منزل میں) صدق و صفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے وہاں کا نکلنا بھی صِدق و صفا پر مبنی ہو۔ (نئی جگہ مجھے دین کے پھیلانے کے لئے) غلبہ عطا فرما۔(سورہ بنی اسرائیل:80)<br />چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کی دعاقبول فرمائی ۔ اسلامی مملکت کے قیام کے لئے آپﷺ کو غلبہ عطا فرمایا۔ ابھی آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان ہی میں قیام فرماتھے کہ آپﷺ نے میثاقِ مدینہ کا اہتمام کیا۔ اس غرض کے لئے آپﷺ نے مہاجرین، انصار، یہود، عیسائی اور دیگر قبائل کو جمع کیا۔ آپﷺ نے جو کچھ گفتگو فرمائی اُس کے بعد آپﷺ نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی۔ ابتدائی مؤرخین نے اسے صحیفہ کا نام دیا ہے..... یہ حکمرانِ وقت کا ایک فرمان تھا، ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا جس پر اُن لوگوں کے دستخط تھے۔ اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ لکھتے ہیں ’’مدینہ میں ابھی نراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے تو یہودی بنو النضیر و بنوقریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں، ان میں باہم نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے، اور کچھ عرب، کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہو کر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے۔ ان مسلسل جنگوں سے اب دونوں بھی تنگ آچکے تھے اور گو وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے۔ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہورہا تھا اور ایک کافی بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبداﷲ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنادیں، حتی کہ بخاری و ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاجِ شہریاری کی تیاری بھی کاریگروں کے سپرد ہوچکی تھی۔ بلاشبہ حضورﷺ نے بیعتِعقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی، مگر اس سے قطع نظر وہاں ہرقبیلے کا الگ راج تھا، اور وہ اپنے اپنے سقیفے یا سائبان میں اپنے امور طے کیا کرتا تھا، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا۔ تربیت یافتہ مبلغوں کی کوشش سے تین سال کے اندر شہر میں معتدبہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے، مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا۔ اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی، اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے۔ ان حالات میں حضورﷺ مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت متعدد فوری ضرورتیں تھیں:<br />-1اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین۔<br />-2 مہاجرین مکہ کے قیام اورگزربسر کا انتظام۔<br />-3 شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ۔<br />-4 شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام۔<br />-5 قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کا بدلہ۔<br />ان ہی اغراض کے مدّنظر حضورﷺ نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جس کے معنی دستور العمل اور فرائضنامہ کے ہیں۔ اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا‘‘۔ (ڈاکٹر حمید اﷲ کی بہترین تحریریں۔ مرتبہ: قاسم محمود۔ صفحہ 253)<br />اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے.....<br />-1 آبادیوں میں امن و امام قائم رہے گا تا کہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔<br />-2 مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی۔<br />-3 فتنہ و فساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا۔<br />-4 بیرونی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔<br />-5 حضورِ اکرمﷺ کے حکم کے بغیر کوئی جنگ کے لئے نہ نکلے گا۔<br />-6 میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اﷲ کے رسولﷺ سے رجوع کیا جائے گا۔<br />اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے، الگ الگ دفعات مرقوم ہیں۔ یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا۔ یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضوراکرمﷺ یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ آپﷺ نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ 900کلو میٹرکی رفتار سے پھیلتی ہوئی اُس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اﷲ کے رسولﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔(محمد رسول اللہﷺ۔ ڈاکٹر حمید اللہ) پھر اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور سیدنا عمر بن خطابؓ نے آگے بڑھایا اور سوبرس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی۔<br />اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسبِ ذیل اُمور سامنے آتے ہیں:<br />-1 امن و امان کا قیام<br />-2 تعلیم وتربیت کی سہولتیں<br />-3 روزگار، سکونت اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی<br />قرآنِ حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اﷲ کا کنبہ ہیں۔ انسان فطرتاً مل جل کر رہنا چاہتا ہے۔ دُنیا اور دنیا کے تمام وسائل ہمارے فائدہ کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اس لئے صاف سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے۔ معلم کتاب و حکمتﷺ ان کی تشریح اور ان کی تفصیل بیان فرما چکے ہیں۔ آےئے!دیکھیں بلدیاتی نظام سے متعلق ہماری رہنمائی کے لیے سیرت نبویﷺ سے کیا اصول ملتے ہیں۔<br />شہری نظام کے بارے میں اﷲ کے آخری رسول حضرت محمد رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو ایک ہدایت دی کہ..... اپنے شہروں کو بہت پھیلنے نہ دینا!.....<br /><br /><br /><br />Rehabilitation آبادکاری<br />ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب اُمڈ پڑا تھا اورآخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔(صحیح بخاری۔ابواب ہجرات) ان نوواردوں کی آبادکاری کے متعلق حضورپاکﷺ نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا تھا۔ اس منصوبہ کی جزئیات کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اﷲﷺ نے نوآبادی (کالونائزیشن) اور شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا۔ نوواردوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا۔ پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آکر جمع ہورہے تھے۔ ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس اُبھرے، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں..... جیسا کہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے..... رسول کریمﷺ کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے۔ جدید شہروں میں آبادی کے دباؤ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبیﷺ سے ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالتمآبﷺ نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحتمند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، رُوحانی بالیدگی، ذہنی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشوونما کا سبب بن سکے۔<br />مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیا م کے بعددارالخلافہ کی تعمیر کے لئے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لئے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیا تھا۔ مسجد اور ازواجِ مطہراتؓ کے لئے مکانات بن جانے کے ساتھ دارالخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔ دوسرے مرحلہ کا آغاز نو وارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلہ جاتی منصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ لگ گیا۔<br />مدینۃ الرسول، ایک لحاظ سے ’’مہاجر بستی‘‘ تھی۔ گوسارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔(طبقات ابن سعد) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کا سلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآبﷺ ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے۔ عوالی میں رہنے والے بنو سلمہ کے قبیلے نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپﷺ نے اسے نامنظور کردیا اور انہیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی۔ ریاست کی نوآبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اﷲ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لُٹے پٹے، بے سرو سامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی سرکاری طور پر کیا جاتا۔ بعد ازاں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یا مکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا۔ گویا مہاجرین کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کے سپرد تھی اور اسلامی حکومت اس بہت بھاری ذمہ داری سے مالی عُسرت اور اقتصادی وسائل کے فقدان کے باوجود، خوش اسلوبی سے عہدہ برا ہوئی۔<br />مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا۔ اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلے پر مشتمل ہوتا تو انہیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا..... تاآں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا.....<br />آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے، اولاً یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلے۔ مگر خیال ہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا جب کہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی۔<br />مہاجروں کو ٹھہرانے کے لئے عموماً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے۔ کنواروں کے لئے ایسے مکانات علیحدہ تھے اور شاید عیال داروں کے لیے علیحدہ۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا۔ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لئے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے۔ (ماخوذازادب المفرد۔ امام بخاری)<br />توسیع شہر: تعمیرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک تواترکے ساتھ جاری رہا۔ یہاں تک کہ بنی قینقاع کے اخراج 3ہجری کے بعد مکانات کی خاصی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ آجانے کے سبب رہائشی قلت بہت حد تک دُورہوگئی مگر یہ مسئلہ ختم نہ ہوا کیونکہ رہائشی سہولتوں کے مقابلے میں نواردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہورہاتھا اس لئے 2ہجری (بنی قریظہ کی فتح ) تک یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا۔ اس کے بعد اسلامی حکومت کے آمدنی کے وسائل بھی پیداہوگئے،مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی قدرے سنبھل گئی،یہودیوں کے بہت سے مکانات بھی مل گئے لہٰذا معاملہ کی سنگینی بڑی حد تک کم ہوگئی تاہم آبادکاری کا کام فتح مکہ اور اس کے بعد بھی جاری رہا۔ فتح کے ساتھ ہی چونکہ ہجرت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا اسلئے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ رُک گیا۔تاہم کئی لوگ بعدازفتح مکہ بھی مدینہ میںآکر آباد ہوئے اور حصول تعلیم وغیرہ کے لئے آنے والوں کا بھی تانتابندھارہا۔(عہد نبوی کا نظامِ تعلیم۔ڈاکٹر حمید اﷲ)<br />عہد نبویﷺ کے اواخرمیں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحان تک ، مشرق میں بقیع الفرقد تک ،اورشمال مشرق میں بنیساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا اور رسول اﷲﷺ نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا۔ شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضوراکرم ﷺ کا یہ اقدام زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جنہیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرے کاقریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہے، آپﷺ نے شہرِنو(مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوزنہ ہونے دیااور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد پانچ سو ہاتھ مقرر کی اورفرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑھ جائے تو نیا شہر بسائیں اورآپ ﷺنے اپنی زندگی میں ہی اس اصول پر عمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے ، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یا تو اور زمینوں میں منتشر کرنے کا حکم جاری کیا تاکہ اس طرح ایک طرف زرعی انقلاب بر پا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جا سکے۔ دوسرے یہ کہ قریظہ ونضیر کی مفتوحہ بستیوں یا جوفِمدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلادیا تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرت تخلیق کی جاسکے۔ اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالتمابﷺ نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔(نسائی: کتاب الصلوٰۃ)<br />آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انہی زرّیں اصولوں پر جنہیں رسول اﷲ نے چودہ سوسال پہلے آزمایا تھا عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشارکی شدت کو کم کرنے میں ایک حد تک نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔<br />مدینہ کی شہری ریاست :<br />موجودہ دور میں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں۔<br />-1شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کا بندوبست ، مارکیٹوں کی تعمیر ، رہائشی انتظامات۔<br />-2پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم<br />-3گندے پانی کی نکاسی ، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست<br />-4تعلیم ، علاج ، دیگر فلاحی اداروں ، کھیل کے میدانوں کاقیام۔<br />-5چمن بندی اور شہر کی خوب صورتی اور تفریح گاہوں کاانتظام۔<br />-6ان کاموں کے لئے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب۔<br />حضور پاکﷺ کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اُصول ملتے ہیں۔ جہاں تک محکمۂ احتساب کا تعلق ہے فارابی ، ماوردی اور طوسی اس کی موافقت میں ہیں۔ماوردی نے محکمۂ احتساب کی خصوصیا ت کے بارے میں لکھاہے کہ یہ محکمہ انصاف اور محکمہ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے۔ محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور بُرے کاموں کو روکے ۔قرآنی اصطلاح ، معروف کی تین قسمیں ہیں۔<br />-1حقوق اﷲ<br />-2حقوق العباد<br />-3وہ اعمال و افعال جن کا تعلق دونوں سے ہو۔<br />مدینۃ النبی میں یہ کام اﷲ کے رسول ﷺ خود انجام دیتے تھے۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ مدینے کے بازاروں میں نکلتے توجگہ جگہ رُک کرناپ تول کر پیمانے دیکھتے۔ چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے۔ عیب دار مال کی چھان بین کرتے۔گراں فروشی سے روکتے۔ استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے۔ اس ضمن میں سیدنا حضرت عمرؓ ، حضرت عبیدؓ بن رفاعہ، حضرت ابو سعید خدریؓ ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ،حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کا تعین کرتی ہیں۔<br />بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں ، پُلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لئے اُن کی منصوبہ بندی کاکام ہوتاہے۔ بعض لوگ ذاتی اغراض کے لئے سڑکوں کوگھیر لیتے ہیں۔ بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑی کرلیتے ہیں۔ فقہ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں۔صحیح مسلم کی ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ’’اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی۔ اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی۔‘‘<br /><br /><br /><br /><br />حضور اکرم ﷺ نے سڑکوں پربیٹھنے ، تجاوزات کھڑی کرنے ،سڑکوں پرگندگی ڈالنے سے روکا ہے۔ آپﷺ نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے۔ سڑکوں پر سایہ دار درخت لگانے کا حکم ہے۔ ابو اللیث سمر قندی اپنے ایک فتوے میں لکھتے ہیں کہ ’’ کسی سمجھ دار آدمی کے لئے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستے پر تھوکے یا ناک صاف کرے یا کوئی ایسا کام کرے جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پاؤں خراب ہوجائیں۔ اسلام کا قانونِ حق آسائش اس با ت کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑ ک پر کوئی عمارت بنائی جائے۔ ‘‘ راستے پر تصرف کسی کام کے لئے جائز نہیں ۔ تجاوزات کھڑی کرنے اور ریڑے لگانے والے اگر راستہ روکیں تو حکم ہے کہ اُن سے مال نہ خریدا جائے۔<br />موجودہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ اس کے بارے میں تعلیمات نبوی ﷺ سے احکام ملتے ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے اﷲ کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔ آپ ﷺنے جانوروں تک کے لیے راستے کی آزادی برقرار رکھی۔ مدینے کی شہر ی مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنوئیں خرید کر کیا گیا ۔قبل از اسلام مدینے کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا۔ بیتالخلا کا اس زمانے میں رواج نہ تھا لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔<br />شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسانی کا سرکاری طورپر انتظام کیا گیا۔ مدینہ میں پینے کے لئے میٹھے پانی کے کنویں اور چشمے بمشکل دستیاب ہوتے ۔ حضرت عثمانؓ نے جو خود بھی مدینہ کی نو آبادی میں رہتے تھے آنحضور ﷺ کے حکم کے مطابق اہلیانِ مدینہ کے لئے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بیرِ رومہ خرید کر وقف کردیا۔ (صحیح بخاری: باب فضائل)<br />اسلام جسم وجان کی پاکیزگی اور ظاہر وباطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے۔ وضو ، طہارت ،غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں اور تکمیلی مراحل تھے۔ آپﷺ نے مسجدیں بنا کر وہاں طہارت خانے تعمیر کرنے کی ہدایت جاری کی۔ اسلام کے عمومی مزاج اور آپﷺ کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے۔ ہر مسجد کے ساتھ طہارت خانے تعمیر کیے گئے۔ (ابن ماجہ)<br />ہمسائے کے حقوق کے بارے میں رسول اکرمﷺ کے جو ارشادات ملتے ہیں اُن پر عملدرآمدسے انسانی معاشرے کے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک کی روایت ہے کہ’’ کوئی مسلمان ،مسلما ن نہیں ہے جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتاہے۔ ‘‘<br />اس ایک ار شاد مقدسہ میں صفائی ستھرائی، صحت ، شائستگی ، خوش خلقی ،صلح جوئی ،ہمدردی ،ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہشہری زندگی کے تمام ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہوسکتی ہے۔<br />ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے۔رسول اﷲﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمادیا۔ گلی یا کوچے کی کم سے کم چوڑائی ۔ جھگڑاہوجانے کی صورت میں سات ہاتھ (ذارع) مقررکی۔(صحیح مسلم) جو فِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طورپر تنگ ہوتی تھیں اس لئے مدینہ میں بھی کوچے تنگ مگر سیدھے تھے۔ باوجود یہ کہ آپﷺ کا اور دیگر صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے مگر آپﷺ نے کشادہ مکانات کو پسند کیا اور فرمایا کہ خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہو۔ ( امام بخاری ۔ادب المفرد)<br />حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے۔صفائی اور پاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے۔ گھر، گھرکے باہر کا ہر مقام، اپنے جسم ، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے۔ مسجدوں کوپاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کاحکم آیاہے۔ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجد نبوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تو اﷲ کے رسول ﷺ اپنے ہاتھوں سے اُ س جگہ کو صاف کرتے تھے۔ وضو اور غسل کا نظام، غلاظت سے صفائی کے احکام ، چوپال ،کھلیانوں کی جگہ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک وصاف رکھنا حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق بھی ہے اور یہ شائستگی کا اظہار بھی ہے۔<br />حفظانِ صحت ہی کے اصولوں کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص ہونے پرزور دیا گیا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے۔ پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام اس عنوان کے تحت بھی آتے ہیں۔ اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں۔ ان میں وباؤں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور بروقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے۔ مکانات ہودار اور روشن رکھنے کے احکام اسلام میں موجود ہیں۔<br />سایہ ،چمن بندی، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ مثلا سورۂ عبس میں ارشادربانی ہے کہ’’ ہم نے (زمین )میں سے انا ج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے لئے بنایا ہے۔‘‘(سورۂ عبس:آیت 32-27)<br />ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتاتھا اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے۔ رسالتمآبﷺ نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے۔مسجد النبیﷺ کے دروازے کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتاہے جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا۔ مسجد النبیﷺ کے بڑے دروازے کے بالمقابل حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کا وسیع وشاداب باغ بیرحاء تھا جہاں حضورپاکﷺ اکثر تشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری، نسائی، ابن ماجہ)<br />مدینہ میں نکاس�ئ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا کیونکہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا۔ اگر کہیں سے کوئی پہاڑی ندی نالہ گزرتاتھا تووہاں پُشتے باندھ کر عمارا ت اور تعمیرات کو محفوظ بنادیاگیا تھا۔<br /><br />ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید وفروخت کی سہولت کے لئے علیحدہ منڈی یا بازار بنایا گیا۔ خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنی قینقاع کے اخراج (3ہجری) کے بعد قائم ہوئی ہوگی کیونکہ اس سے پیشتر عبدالرحمان بن عوف اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے۔(صحیح مسلم)<br />مدینہ کا بازار مسجد النبیﷺ سے کچھ زیادہ فاصلے پرنہ تھا۔ بازار خاصا وسیع وعریض تھااور اخیر عہد نبویﷺ میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالتمآب ﷺ نے زبردست کوششیں کیں جس میں سب سے اہم آپﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ’’ مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے۔‘‘ (فتوح البلدان ۔ بلاذری)<br />زمانہ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجارت میں بڑی رکاوٹیں تھیں۔ آپﷺ نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دوررَس نتائج کا حامل تھا، اور دراصل اس طرح آپﷺ نے صرف چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی بلکہ جزیرۃ العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں،مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات اور برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزادتجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نا صرف اقوام ملل کے لئے بلکہ پوری نوعِ بشر کی مادی ترقی کے لئے ضروری ہے جس کے ذریعے بین الاقوامی طورپر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کو فائدہ بھی پہنچایا جاسکتا ہے اور اقوام بھی خوشحال بن سکتی ہیں۔<br />تعلیمی اداروں کا قیام : حضورپاکﷺ نے منجملہ اور باتوں کے تعلیم پر بڑا زور دیا ہے۔تاریخ اسلام میں پہلا نصابِ تعلیم رسول اﷲﷺنے ہی ترتیب دیا۔اﷲ کے رسول ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بنا کر اسلام کی پہلی اقامتی درسگاہ کی بنیاد ڈالی تھی جہاں آپﷺ خود درس دیا کرتے تھے۔ اپنے دورخلافت میں حضرت عمرؓ نے ہر مسجد میں مکتب قائم کرکے اُن کی نگہداشت و اخراجات کا ذمہ دار بھی حکومت کو بنایا۔آج دورجدید میں شہری حکومت کی ذمہ داریوں میں تعلیم کی اشاعت اور فنون کی تربیت بھی شامل ہے۔<br />اﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ جہاں سے ملے لے لیں۔<br /><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-48955908606576907922009-11-01T03:21:00.000-08:002010-06-15T09:07:46.410-07:00conversion Table<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانے</span><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhfTQbi1mX_Ir_AGIWm73rgjEY24WHI3-qd251uGzTPBf703DAL7Oy0gUwt1IvruwI2xedjQotDP_cq77Y7JblcuC7LH6pvnfu6sRUG0l6R-ha1p89Y5h6iQn_nXyFexsP_UdasZQ14Ljs/s1600-h/conversion.gif"><img style="cursor: pointer; width: 212px; height: 302px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhfTQbi1mX_Ir_AGIWm73rgjEY24WHI3-qd251uGzTPBf703DAL7Oy0gUwt1IvruwI2xedjQotDP_cq77Y7JblcuC7LH6pvnfu6sRUG0l6R-ha1p89Y5h6iQn_nXyFexsP_UdasZQ14Ljs/s400/conversion.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5399098703403418258" border="0" /></a><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے عربی تجارتی پیمانے</span><br />ایک اوقیہ = 40 درھم<br />ایک اوقیہ = 1/12 رطل<br />ایک رطل = 12 اوقیہ<br />دس درہم = 7 مثقال<br />ایک نواۃ = 5 درھم<br />ایک شیعرہ = 1/8 درھم<br />ایک دانق = 1/6 درہم<br />ایک درہم = 8 شیعرہ<br />ایک درہم = 6 دانق<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانے کا جدید متبادل</span><br />ایک درہم = 1/8 اونس = 3٫543گرام<br />ایک دینار = 3٫5 ماشہ<br />ایک رطل = 5 شامی پونڈ = 15٫75 مصری اونس<br />ایک اوقیہ = ڈیڑھ اونس<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">جدید متبادل</span> <span style="font-size:130%;"> پیمانے</span><br />ایک اونس = 28٫35 گرام<br />ایک پونڈ = 16 اونس = 453٫6 گرام<br />ایک اوقیہ = 40 درھم<br />ایک اوقیہ = 40 درھم<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے رومی پیمانہ</span><br />سونے کا مثقال = 16 ماشہ<br />سونے کا مثقال = چاندی کی 15 سونے کا مثقال<br />چاندی کا درہم = 1/4 مثقال<br />چاندی کا 2 درہم = 1/2 مثقال<br />چاندی کا 4 درہم = 1 مثقال<br />تانبہ کے دینار(اسّاریون) = 1/16 دینار<br />تانبہ کے دینار(پستون) = 1/4 دینار<br />تانبہ کے دینار(قدرنتس) = 1/2 دینار<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے رومی، عبرانی، یونانی و فارسی پیمانہ</span><br />پیجس (یونانی) = 1 گز<br />پرسایا باع (یونانی) = 6 انچ<br />غلوہ (یونانی) = 200 گز<br />سکونس (یونانی) = 30 غلوہ<br />لطیرہ (یونانی) = 8 انچ<br />درہم (یونانی) = نیم مثقال<br />میطرس (یونانی) = بت<br />خینکس (یونانی) = 2 سعا<br />صامد (یونانی) = ایک بیگھا = نصف ایکڑ<br /><br />میل (رومی) = 1618 گز<br />شاپش (عبرانی) = تہائی 1/3<br />اردب (فارسی) = 24 سیر<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;"></span><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ </span><span style="font-size:130%;">پیمائش</span><span style="font-size:130%;"></span><br />اصبع = ایک انگل = 3/4 انچ<br />تومح = 4 انگل = 3 انچ<br />زارت = 4 ضرب 4 ضرب 4 انگل = 9 انچ<br />اَمَّہ = ایک ہاتھ = 18 انچ<br />قانِہ = سرکنڈہ = 3 گز<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ اوزان</span><br />جیرہ = جیرہ = 6 رتی = 1/20 مثقال<br />روبع = چوتھائی مثقال = پونے 3 ماشہ<br />باقع = نصف مثقال = ساڑھے 7 ماشہ<br />شاقل = مثقال = سوا تولہ<br />مانہ = منا = ساڑھے 62 تولہ<br />کِکّار = قنطار = 47 سیر معہ سیر کا 7/8 واں حصّہ<br /><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ گنجائش</span><br />لوج = 6 چھٹانک<br />قاب = ڈیڑھ سیر<br />عومر = 2 سیر معہ سیر کا 7/10 واں حصّہ<br />سعا = 9 سیر = 6 قاب<br />ایفہ = 27 سیر = 3 سعا<br />اومر = 270 سیر = 10ایفہ<br />لاتک = 1350 سیر = 50 اومر<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ گنجائش مائع</span><br />لوج = 6 چھٹانک<br />ہین = ساڑھی 4 سیر = 12 لوج<br />بت = 27 سیر = 6 ہین<br />کرّ = 270 سیر = 10 بت<br /><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-11520044795202053822009-11-01T01:57:00.000-07:002010-06-15T09:10:20.763-07:00Price Rate<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">عہدِ نبوی ﷺ میں اشیاء کی قیمت</span><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg4brvUKdbfGEr-KZa0NWrwHu0nQonUhO7nv7MIlNsziPRapL75OynwQ_M3VjvcQv0msLjI8s7ZX6cwfnXutpJuMOcndF-ext6On6ilR5mgh9XpjP5xhyoEUdvbyWvm-cEya34t8TqqPj8/s1600-h/price-rate.gif"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 286px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg4brvUKdbfGEr-KZa0NWrwHu0nQonUhO7nv7MIlNsziPRapL75OynwQ_M3VjvcQv0msLjI8s7ZX6cwfnXutpJuMOcndF-ext6On6ilR5mgh9XpjP5xhyoEUdvbyWvm-cEya34t8TqqPj8/s400/price-rate.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5399086233147958162" border="0" /></a><br /></div><div style="text-align: right;"><br /><br /><span style="font-size:130%;">عرب میں اشیاء کی قیمت: بحوالہ پیغمبرِ اسلام- کونسٹان ویرژیل جارج</span><br />عام اونٹ کی قیمت: 400 درہم<br />عام غلام کی قیمت: کم سے کم 150 درہم<br />مضبوط غلام کی قیمت: 800 درہم تک<br />ایک بھیڑ کی قیمت: 40 درہم<br />ایک بکری کی قیمت: 25 درہم<br />ایک نیزے کی قیمت: 4 درہم<br />اونٹ پر باندھنے والے کجاوہ کی قیمت: 16 درہم<br />ایک کلنگ (کدال) کی قیمت: 6 درہم<br />ایک روٹی کی قیمت: 1/6 درہم<br />چھ روٹی کی قیمت: 1 درہم<br /><br /><br /><span style="font-size:130%;">عرب میں اشیاء کی قیمت: بحوالہ احادیث نبوی</span><br />ایک بکری کی قیمت: نصف سے 1 دینار -بخاری کتاب المعجزات<br />اونٹ پر باندھنے والے کجاوہ کی قیمت: 13 درہم -بخاری باب مناقبت المہاجرین<br />قبطی (مصری) غلام کی قیمت: 800 درہم - بخاری کتاب الاکراہ<br />ایک خادمہ کی قیمت: 19 اوقیہ (360 درہم) - بخاری کتاب البیوع<br />رسول اللہ کے ایک گھوڑے (سبک) کی قیمت: 400 درہم - تاریخ طبری<br />ایک ڈھال کی قیمت: 3 درہم - بخاری کتاب الحدود<br /><br /><br /><div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;">عہدِ نبوی ﷺ میں ملازم کی اجرت - بحوالہ اسلام کے معاشی نظریے - ڈاکٹر محمد یوسف الدین</span><br />گلہ بانی، بکریاں ریوڑ چرانے کی اجرت فی جانور 1 قیراط (یعنی 20 جانور 1 دینار) ہوتی تھی - بحوالہ بخاری، ابن ماجہ<br />ہجرت حبشہ کے وقت جدّہ سے حبشہ جہاز کا کرایہ فی سوار کرایہ نصف دینارتھا - بحوالہ تاریخ طبری، طبقات ابن سعد<br />حضرت بلال کو 5 اوقیہ (200 درہم) میں خریدا گیا - تاریخ طبری<br />حضور کی اونٹنی قصوہ کو 400 درہم میں خریدا گیا - تاریخ طبری<br /></div><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-84365060048261416492009-10-31T15:15:00.000-07:002010-06-15T09:03:16.894-07:00Year By Year Atlas<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">دنیا عہد نبوی ﷺ میں<br /><span style="font-size:130%;">سال بہ سال </span></span><span style="font-size:130%;">عہد نبوی ﷺ </span><span style="font-size:180%;"><span style="font-size:130%;">کے نقشہ</span><br /><span style="font-size:130%;"><br /><br /></span></span><span style="font-size:130%;">دنیا 550ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhTB_LrUK6p6LMV-sxQpdBelNdGVL2k_8Px1OMUllPnOYd-oR1iwcLSpsLwBEU8wcIfuMfoH6J5V09QDXM3o4uteAc9ka-vXeURXNvwho_C5VcdekP_G9ddK0D7pzrPtzyWnJORSE_B4MM/s1600-h/550.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhTB_LrUK6p6LMV-sxQpdBelNdGVL2k_8Px1OMUllPnOYd-oR1iwcLSpsLwBEU8wcIfuMfoH6J5V09QDXM3o4uteAc9ka-vXeURXNvwho_C5VcdekP_G9ddK0D7pzrPtzyWnJORSE_B4MM/s400/550.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398895098817188690" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 555ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhEWPY8IkRLqjPreBruC0fX5Q4zIhBg_10h5zBWzak96UhgENDqk0Q2RV6fn5ArXpW1yEZLJOq1AHTxzvO-Wq30r3wdY2RCISRmgNCGivdPqLG3VvL-YjZO2PPlMI_CD4sAli87BSbDWA8/s1600-h/555.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhEWPY8IkRLqjPreBruC0fX5Q4zIhBg_10h5zBWzak96UhgENDqk0Q2RV6fn5ArXpW1yEZLJOq1AHTxzvO-Wq30r3wdY2RCISRmgNCGivdPqLG3VvL-YjZO2PPlMI_CD4sAli87BSbDWA8/s400/555.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398895092452666114" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 560ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjxpmbKJrwSqrfo6-CqD82pEwCxUBzQryLjM6Fmo-bQ1cEwDC7e4AaDqpKdaGU4MgGYkpXfsitHdWXoWNMZchEEgpSevfJ9uhDG0OyLmUARnVWuS8JMRiO6SVLFdtluu_AQUR4tib7I3DU/s1600-h/560.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjxpmbKJrwSqrfo6-CqD82pEwCxUBzQryLjM6Fmo-bQ1cEwDC7e4AaDqpKdaGU4MgGYkpXfsitHdWXoWNMZchEEgpSevfJ9uhDG0OyLmUARnVWuS8JMRiO6SVLFdtluu_AQUR4tib7I3DU/s400/560.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398895087894388674" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 565ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZqYPIeNXixKWsrpv8pPSf6gNOf643f5ORGoPKuRQ7ETMeS4CNiUNDbf8MFG3K0Eiqs05fQ72Wkne_3lTANhaWils3RL8lDVsjJiRdFEZzOWcnPNzoJ_3B-0tdR4Rv7Lt4yjwerQ3W4F0/s1600-h/565.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZqYPIeNXixKWsrpv8pPSf6gNOf643f5ORGoPKuRQ7ETMeS4CNiUNDbf8MFG3K0Eiqs05fQ72Wkne_3lTANhaWils3RL8lDVsjJiRdFEZzOWcnPNzoJ_3B-0tdR4Rv7Lt4yjwerQ3W4F0/s400/565.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398895082490489122" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 570ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQIhVVBUFrch0qM7_vcVX8dLJjbXa7WT8p4xUgHg9jFLV5Df03f4Vv5jAgKNTFJsU2F-Z_4m5cPAQF7pXtqIWmmM0qv8y4FXFmNhVFMEFFyFwjaljInJ45d7ToUmEgOcWVaGexkpWSzU8/s1600-h/570.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQIhVVBUFrch0qM7_vcVX8dLJjbXa7WT8p4xUgHg9jFLV5Df03f4Vv5jAgKNTFJsU2F-Z_4m5cPAQF7pXtqIWmmM0qv8y4FXFmNhVFMEFFyFwjaljInJ45d7ToUmEgOcWVaGexkpWSzU8/s400/570.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398894115554998546" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 575ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-rCIRNRRdgPZXFTznKvhE5ODPSO4-XY9QDWyNVonC83COb7_Wmsppa-gJMxoBJtQAbzmJJHYFCcDgDZJHPg-zUT0ykuRk8JUPUeB506JjQwBNfssC7NarjMBXkK5NlARbotPntPXBv6s/s1600-h/575.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-rCIRNRRdgPZXFTznKvhE5ODPSO4-XY9QDWyNVonC83COb7_Wmsppa-gJMxoBJtQAbzmJJHYFCcDgDZJHPg-zUT0ykuRk8JUPUeB506JjQwBNfssC7NarjMBXkK5NlARbotPntPXBv6s/s400/575.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398894108345268642" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 580ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhFXFSjcsoHg-tpVPTMBFpnrbwOBYZpCroYQSt4fOp605ePSpXMYnqyKuMQcd0WNkI0ZKZjQtIk7V-3rt18CxKMDkFMvZPKsVpiFgXr60A6IwVq4O5Bh5LmUIDmOKU3NciO3V13ok9088U/s1600-h/580.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhFXFSjcsoHg-tpVPTMBFpnrbwOBYZpCroYQSt4fOp605ePSpXMYnqyKuMQcd0WNkI0ZKZjQtIk7V-3rt18CxKMDkFMvZPKsVpiFgXr60A6IwVq4O5Bh5LmUIDmOKU3NciO3V13ok9088U/s400/580.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398894106557265762" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 585ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEish4rAdpYGc0a7NNJcHOo-YUw4HW9JRUvceHjNWOl4I09HUJ4qGrIPF99422pnBh99E8lHzSzjtyLjv2NOdtPvLyFQ9pV7AdEUSKjutKjW0vjkLFOQtD38oLAY4ztvxiuCEu1MgeV4pQ4/s1600-h/585.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEish4rAdpYGc0a7NNJcHOo-YUw4HW9JRUvceHjNWOl4I09HUJ4qGrIPF99422pnBh99E8lHzSzjtyLjv2NOdtPvLyFQ9pV7AdEUSKjutKjW0vjkLFOQtD38oLAY4ztvxiuCEu1MgeV4pQ4/s400/585.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398894099652800642" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 590ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgiAKw4sRcrWFZB3Y46wSDI8Q2Y1g3Nv-M-huBRNAw2cHo1UpGaW0gexAlu7XyerUZCEStoZeIpU8FfwVipv2mM1HR4oCezhYY3Ovsuus9NjA8AzGLw1caCvDia4fJReGJKo3w6ygv5sF0/s1600-h/590.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgiAKw4sRcrWFZB3Y46wSDI8Q2Y1g3Nv-M-huBRNAw2cHo1UpGaW0gexAlu7XyerUZCEStoZeIpU8FfwVipv2mM1HR4oCezhYY3Ovsuus9NjA8AzGLw1caCvDia4fJReGJKo3w6ygv5sF0/s400/590.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398894094463574626" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 595ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjp13ZeSj1YBAshR4f3CSu9kwjNGQtiLNyW8GPzPmKTah8xgWzYckrAtFc1X5w1f8kWooIwc_Liloa_c-a1Zjk8NHtsJIXhwmGniFLNODJbp0MUMEc356vYlY0CzdBGubR2FS-n5lAZm10/s1600-h/595.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjp13ZeSj1YBAshR4f3CSu9kwjNGQtiLNyW8GPzPmKTah8xgWzYckrAtFc1X5w1f8kWooIwc_Liloa_c-a1Zjk8NHtsJIXhwmGniFLNODJbp0MUMEc356vYlY0CzdBGubR2FS-n5lAZm10/s400/595.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893736302059106" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 600ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgkbmHQAI3WIj3nDQyhFpBtWAczy3q_lqPTYaM7HPU-MPzBSCTTMVJ2VKc2Qj4sWsLe-Csbt9usyyhri4KRT4QJU_XWmu95zT3eGRk7BULlVjD4LhcyrSVJ15Ku8OtsXL1A7i8y03hkVmE/s1600-h/600.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgkbmHQAI3WIj3nDQyhFpBtWAczy3q_lqPTYaM7HPU-MPzBSCTTMVJ2VKc2Qj4sWsLe-Csbt9usyyhri4KRT4QJU_XWmu95zT3eGRk7BULlVjD4LhcyrSVJ15Ku8OtsXL1A7i8y03hkVmE/s400/600.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893730502267778" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 605ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEid95l5Ad_NKBlDpv6SMB0jhnM1zcHQvz5FinNvwiOiaw_Ae7PHtevJ2wff6-f5f41pkvmF4QtxwwiuvdtifO_Qv5b9mw0lY1jgSC6VSs39XlBITerLFivlZlY7XJ4YCMQ3Fn94LeehnM0/s1600-h/605.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEid95l5Ad_NKBlDpv6SMB0jhnM1zcHQvz5FinNvwiOiaw_Ae7PHtevJ2wff6-f5f41pkvmF4QtxwwiuvdtifO_Qv5b9mw0lY1jgSC6VSs39XlBITerLFivlZlY7XJ4YCMQ3Fn94LeehnM0/s400/605.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893727929882658" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 610ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEinlVg2EYPwha41a8JONTfCY_nCSBYHKYUnbz5XpysjWfgbnIeXDQi1eJ9-Co5uXvFj5_9gmrNoMr-enJt-YBOfxvIinfAQPL9DKaPX8KdsBIglm4b2l_aRTSwpL-SV-ywPxuN8h8jTm58/s1600-h/610.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEinlVg2EYPwha41a8JONTfCY_nCSBYHKYUnbz5XpysjWfgbnIeXDQi1eJ9-Co5uXvFj5_9gmrNoMr-enJt-YBOfxvIinfAQPL9DKaPX8KdsBIglm4b2l_aRTSwpL-SV-ywPxuN8h8jTm58/s400/610.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893723256214370" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 615ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgOpMTecb500mv0V0aNk5KhtU3VIDmrcBXzuiteQvP-qh_GhUZT5pl5lfd361rKEGmu7Ag_eXoPO9_6oNzIo5RjxVkP_cUprFcFrnbXgC-4PQGNwhaYX7r9su08xLpRnEacacNx_s0q9TY/s1600-h/615.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgOpMTecb500mv0V0aNk5KhtU3VIDmrcBXzuiteQvP-qh_GhUZT5pl5lfd361rKEGmu7Ag_eXoPO9_6oNzIo5RjxVkP_cUprFcFrnbXgC-4PQGNwhaYX7r9su08xLpRnEacacNx_s0q9TY/s400/615.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893720251073106" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 620ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEim6eereS1nMHvxSM0k2lLWDaucm5_bqf4mWjnn3-B3FHD2Vtdj9EsbTQSvdyGoBSpNdS2Nh1i8b4jbcivy2qU0E5oGp9UiyeKjj65E4ap49iKi5Ph802ygxAE31E3NTJtakVk6ekcPQUs/s1600-h/620.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEim6eereS1nMHvxSM0k2lLWDaucm5_bqf4mWjnn3-B3FHD2Vtdj9EsbTQSvdyGoBSpNdS2Nh1i8b4jbcivy2qU0E5oGp9UiyeKjj65E4ap49iKi5Ph802ygxAE31E3NTJtakVk6ekcPQUs/s400/620.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893089815641314" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 625ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivYPoDPZveb5td0d42IUwku124Zy-9iJySAu9zngBKaTUzdDvtW6Tdgz2vvJQaM0P9p3FIdxHtGqDIr1pfL2rCMUtUQWkQMxYiq70d_68yj_dlVkpbXfgANCdrlTDpByb7bVmNN__gAnM/s1600-h/625.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivYPoDPZveb5td0d42IUwku124Zy-9iJySAu9zngBKaTUzdDvtW6Tdgz2vvJQaM0P9p3FIdxHtGqDIr1pfL2rCMUtUQWkQMxYiq70d_68yj_dlVkpbXfgANCdrlTDpByb7bVmNN__gAnM/s400/625.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893086019294754" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 630ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEioSEhR7s_JLeWbEkGAC5tSLxfq8lXcrL8tH_zb4vPghBNXmLlxNKuP3fvso2ycHElxLq48RELux7ofhLWRDlZ1JTwhOPx9iHNRnv6ZUIgHP0oLpXzSm4SY6jGPrgBYCA0hsY2x7Xdr4Do/s1600-h/630.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEioSEhR7s_JLeWbEkGAC5tSLxfq8lXcrL8tH_zb4vPghBNXmLlxNKuP3fvso2ycHElxLq48RELux7ofhLWRDlZ1JTwhOPx9iHNRnv6ZUIgHP0oLpXzSm4SY6jGPrgBYCA0hsY2x7Xdr4Do/s400/630.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893081974026274" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 632ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjdKwc_HHSjrHO7_gH6rEE1c79cYXkJ4W4on_UDX2hAYTkOsvGs7kLg-QhGmY_6tHAk0qn8bodSFPKqwYRqk-2JwQVmANiI84BlRvoPgX6hE-7ZMQ7f-z6sT72S3-_Pzw7G1EB84dg32iA/s1600-h/632.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjdKwc_HHSjrHO7_gH6rEE1c79cYXkJ4W4on_UDX2hAYTkOsvGs7kLg-QhGmY_6tHAk0qn8bodSFPKqwYRqk-2JwQVmANiI84BlRvoPgX6hE-7ZMQ7f-z6sT72S3-_Pzw7G1EB84dg32iA/s400/632.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893078631602370" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 635ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizCND8_7NOQ0P50dPlq-YCFDU7uQgNdneDma9vdP9WV7YcQdMcS1FSRn-QwzgQrOaBV-j6EYywEMYjDeyOtI5XdWVgNFNAySQi8GkZHa0kXNZOk1B_nINi4NF2QFjdra02Nkkwl07Yaak/s1600-h/635.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizCND8_7NOQ0P50dPlq-YCFDU7uQgNdneDma9vdP9WV7YcQdMcS1FSRn-QwzgQrOaBV-j6EYywEMYjDeyOtI5XdWVgNFNAySQi8GkZHa0kXNZOk1B_nINi4NF2QFjdra02Nkkwl07Yaak/s400/635.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398893075655637938" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 640ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgVkwWAnQ7-oyu70qo1xYKdAMo7arRqQBYFLsUVCfp7sh2MzbMoJXBsjhpxZtESFvECRiUCpJf60WdjP8-yq-DpinQRud9BWSVHBZJSc1im4gC6xc_QYNuFG9BXnD6zK-eokVB408dIXvY/s1600-h/640.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgVkwWAnQ7-oyu70qo1xYKdAMo7arRqQBYFLsUVCfp7sh2MzbMoJXBsjhpxZtESFvECRiUCpJf60WdjP8-yq-DpinQRud9BWSVHBZJSc1im4gC6xc_QYNuFG9BXnD6zK-eokVB408dIXvY/s400/640.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398892682045676770" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 645ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgjc9gQa7dmoTuryW0uJdDojNUkz5fzhwR9cFtKdlBNaYKqPranN80ORmWiuRhNbo_8RjZ2NsXcqKLISCXQ43ZaQvwNd3Wu8kokW3QwwBK8dd_7s7nWmNIWS167I3hTcsdQOT38X9SNU38/s1600-h/645.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgjc9gQa7dmoTuryW0uJdDojNUkz5fzhwR9cFtKdlBNaYKqPranN80ORmWiuRhNbo_8RjZ2NsXcqKLISCXQ43ZaQvwNd3Wu8kokW3QwwBK8dd_7s7nWmNIWS167I3hTcsdQOT38X9SNU38/s400/645.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398892679375916290" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 650ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiJ3Dkv_Kg8UGt7yd5jLmgRIeM68tV90xkjVsERKQSd7_Qg9w8Jal7EXrUucJhwJpLODd-fjjKEhc2948JSJN1XRZTx_PKXqdSI1MX9bmiVkRGJmd86ek7l_IbDqm4Oj2bnwxH2tWqlrhE/s1600-h/650.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiJ3Dkv_Kg8UGt7yd5jLmgRIeM68tV90xkjVsERKQSd7_Qg9w8Jal7EXrUucJhwJpLODd-fjjKEhc2948JSJN1XRZTx_PKXqdSI1MX9bmiVkRGJmd86ek7l_IbDqm4Oj2bnwxH2tWqlrhE/s400/650.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398892673527115794" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 655ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg3fa2MN18j4oKVdITlPBModUxbFH_pg2X_KqHLO-Fm91gccaLH-_wz24PI_l-usTzJtam1wNoBvLeyDQg8jukhpMed8jz9Z3SzRwwvvGc30CslW96YAgZNoaHX56tIZQXRE2WNqO_toLM/s1600-h/655.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg3fa2MN18j4oKVdITlPBModUxbFH_pg2X_KqHLO-Fm91gccaLH-_wz24PI_l-usTzJtam1wNoBvLeyDQg8jukhpMed8jz9Z3SzRwwvvGc30CslW96YAgZNoaHX56tIZQXRE2WNqO_toLM/s400/655.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398892673640573826" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">دنیا 660ء میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEitNbNYQmbcP56MBJYqAM4So1RklZXyIaqeAeRnhF2QgxhoxuBUOliLVzbl5xBH9BsFl5z8vk_Gp7BX1peM0IpUGxMchSWwN21zvnCTj251HqmsJ2_OiKuOqnjqETVy8NWFGUvgqjEh9As/s1600-h/660.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 300px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEitNbNYQmbcP56MBJYqAM4So1RklZXyIaqeAeRnhF2QgxhoxuBUOliLVzbl5xBH9BsFl5z8vk_Gp7BX1peM0IpUGxMchSWwN21zvnCTj251HqmsJ2_OiKuOqnjqETVy8NWFGUvgqjEh9As/s400/660.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398892671976418578" border="0" /></a><br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-66786403790931675412009-10-31T15:04:00.000-07:002010-06-15T09:02:50.055-07:00World Atlas<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">دنیا عہد نبوی ﷺ میں</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;">عہد نبوی ﷺ کا اٹلس</span><br /><br /><br /><span style="font-size:100%;">دنیا 565 عیسوی میں</span><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg4uxlFE7-GGFztzrQldjI9kSiOHUuNSrFdpqurx8flo_Ii1hZAtRGWQcC7pwzj32KuVbI08nFqJDVZAh6GoJ9GoovdU_cn3lvdzmIlVWawBPvQd5w1kxABEs3mhw5hp-8YMDsZBNICD84/s1600-h/worldmap-565.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 500px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg4uxlFE7-GGFztzrQldjI9kSiOHUuNSrFdpqurx8flo_Ii1hZAtRGWQcC7pwzj32KuVbI08nFqJDVZAh6GoJ9GoovdU_cn3lvdzmIlVWawBPvQd5w1kxABEs3mhw5hp-8YMDsZBNICD84/s1600/worldmap-565.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398889144649092114" border="0" /></a><br /><br />دنیا 600 عیسوی میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEggZGKlUyQvgkZjQBinxvc1s8fhaIAFO7GMuwXN36dMUV4W3ukhhA5g8T2XWJVqO8fXXBc0WOE1zZ9mi_-eAONPSsK1zLv7hm8RVCgg3OqxV2In-WlactmgGCE01Z32hGYNOmBJCSCAsEg/s1600-h/worldmap-600.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 500px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEggZGKlUyQvgkZjQBinxvc1s8fhaIAFO7GMuwXN36dMUV4W3ukhhA5g8T2XWJVqO8fXXBc0WOE1zZ9mi_-eAONPSsK1zLv7hm8RVCgg3OqxV2In-WlactmgGCE01Z32hGYNOmBJCSCAsEg/s1600/worldmap-600.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398889430552456434" border="0" /></a><br /><br />دنیا 610 عیسوی میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrat8859zq3aPw3dxWH3A3sI8yCFVeJ1cat4F8Gl5RH3w2Bzn8e59Rwaj_e1ZCV6sIwRTOEfaQO4pJp0C0A_7olblxMtCuq6EKQW4j7Ga_3Gi43N9wHAhS9JY2d0R3IGITyQ1xoqyFCCE/s1600-h/worldmap-610.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 500px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrat8859zq3aPw3dxWH3A3sI8yCFVeJ1cat4F8Gl5RH3w2Bzn8e59Rwaj_e1ZCV6sIwRTOEfaQO4pJp0C0A_7olblxMtCuq6EKQW4j7Ga_3Gi43N9wHAhS9JY2d0R3IGITyQ1xoqyFCCE/s1600/worldmap-610.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398889441470834562" border="0" /></a><br /><br />دنیا 700 عیسوی میں<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhinvkMkqtEH40bkAzrRda6-e-SBgnnJt-UAdUi_nxzwbqPSjKDiihnCGFqK4CSsVd6iQ26wG3TzWt2gFmyzM4OnHjqcAP8sk_259Csp3vnnNby9zQkX9Hw61b-IDD2LvKiZViveg9FWow/s1600-h/worldmap-700.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 500px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhinvkMkqtEH40bkAzrRda6-e-SBgnnJt-UAdUi_nxzwbqPSjKDiihnCGFqK4CSsVd6iQ26wG3TzWt2gFmyzM4OnHjqcAP8sk_259Csp3vnnNby9zQkX9Hw61b-IDD2LvKiZViveg9FWow/s1600/worldmap-700.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5398889445465772466" border="0" /></a><br /><br /><br />بڑی اور نمایا تصویر کے لیے تصویر پر کلک کریں<br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-19793131173336520832009-10-27T13:55:00.001-07:002010-06-15T09:01:28.506-07:00Trade Routes<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">عہدِ نبوی ﷺ میں تجارتی سفر</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(0, 102, 0);font-size:130%;" ><br /></span><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEidXICH2c3D8BFw_l8jXxFy0MYtpfBHV3tRMWYvv8bd6gNBLSh0nxGhpMsGuMB8bSKasYC7QR5TFkTX_sHgGVY6BhM-FgOUzzv0etLFkyT_ALyQj0bViHMzDMTfAmpufQzDuNJ3wFE83g0/s1600-h/06a.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 266px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEidXICH2c3D8BFw_l8jXxFy0MYtpfBHV3tRMWYvv8bd6gNBLSh0nxGhpMsGuMB8bSKasYC7QR5TFkTX_sHgGVY6BhM-FgOUzzv0etLFkyT_ALyQj0bViHMzDMTfAmpufQzDuNJ3wFE83g0/s400/06a.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5399235388843570258" border="0" /></a><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(0, 102, 0);font-size:130%;" >عرب میں تجارتی سفر</span><br />علامہ ابوعلی مرزوقی ؒ کتاب ’’الازمنہ والامکنہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عرب میں کل13بڑے بازار لگتے تھے۔ جو ایک چین سسٹم کی طرح چلتے تھے، ’’دومۃ الجندل‘‘ شام اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے پندرہ دن کی مسافت پر جبلِطے کے قریب ربیع الاول میں لگتاتھا۔ یہاں شام اور روم کے تاجر آتے تھے۔ ’’مشقر‘‘ (موجودہ مسقط) نجران اور بحرین میں واقع تھا۔ دومۃالجندل کے اختتام پر تاجر یہاں آتے اور پورے جمادی الآخر یہیں رہتے۔ یہاں اہلِ فارس بڑی کثرت سے آتے تھے۔ ’’صُحار‘‘ کا بازار ماہِ رجب میں لگتا یہ یمن کی بستی عمان میں ایک پہاڑ سے متصل تھا۔ یہاں چین اور ہند کے تاجر آتے تھے۔ ’’دبّا‘‘ (موجودہ دُبئی) عمان کی بندرگاہ کا بازار تھا جو رجب کے اختتام پر لگتاتھا۔ سندھ، ہند اور چین کے تاجر یہاں آتے تھے۔ شحرمہرہ کا بازار عدن اور عمان کے درمیان ساحل پر لگتاتھا اور ہند ، فارس اور حمیر کے تاجر یہاں آدھا رمضان گزارتے تھے، پھر تجارتی قافلہ یمن کے دارلحکومت’’صنعاء‘‘ پہنچتا اور رمضان کے اختتام تک بازار جاری رہتاتھا۔ یہاں سے تجارتی قافلے دو حصوں میں بٹ جاتے ایک قافلہ حضر موت کے بازار’’سوق رابیہ‘‘ چلاجاتا اور دوسرا قافلہ نجد کے بالائی علاقے عکاذ کے بازار میں جاتا۔ یہ دو بازار ماہ ذی قعدہ میں لگتے تھے اور پھر ذوالحجہ کا چاند نظر آتے ہی بازار ذوالمجاز منتقل ہوجاتا جو عرفات سے تین میل دور لگتاتھا۔ حجاج اور مکہ کے لوگ اس میں ضرورشریک ہوتے تھے۔ان کے علاوہ سوق نطاۃ خیبر میں، سوق حجر یمامہ میں، سوق مجنہ جو ذوالمجاز اور سقی کے قریب واقع تھا۔ سوق دیرایوب،سوقِ بصریٰ اور سوق اذرعات بھی عرب کے مشہور بازاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ (الازمنہ والامکنہ ۔ مرزوقی)ممکن ہے کہ چین سسٹم کے ان بازاروں میں حضورپاک.. ﷺ نے بھی تجارتی سفر کیے ہوں اس موضوع پر چند روایات اور حوالے ملتے ہیں جنہیں ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔<br /><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(0, 102, 0);font-size:130%;" >عالمی تجارتی سفر</span><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi6gTAOl00zu8ii00n_DDOeNHZUExwmhumquLX71_gBb700DXJ2SMJp5eg9uQgniJq7KdB4zZZlsmexUWn30GLiGp1rewhahNeZXapbP2xMA9kCEdl8x0Ww-BKh7EbJwDF3pwG-hVQTlk8/s1600-h/trade-737.jpg" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 550px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi6gTAOl00zu8ii00n_DDOeNHZUExwmhumquLX71_gBb700DXJ2SMJp5eg9uQgniJq7KdB4zZZlsmexUWn30GLiGp1rewhahNeZXapbP2xMA9kCEdl8x0Ww-BKh7EbJwDF3pwG-hVQTlk8/s1600/trade-737.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5397384827740251474" border="0" /></a><br /><br /><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(0, 102, 0);font-size:130%;" >محمد رسول اللہﷺ کے تجارتی سفر</span><br />لڑکپن کے دور میں محمد رسول اللہ ﷺکے تجارتی اسفار کا تذکرہ ملتاہے۔ اس سفر میں آپ ﷺاپنے چچا ابو طالبؓ اور حضرت زبیرؓ کے ہمراہ شریکِ تجارت رہے۔ آپ ﷺ کے یہ اسفار یمن، بحرین اور شام کی طرف تھے۔<br />علامہ شبلی نعمانی سیرت النبیؐ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب سنِ شعور کو پہنچے تو اپنے چچا زبیرؓ کے ہمراہ تجارتی سفروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ بحوالہ:سیرت النبی : صفحہ31 آپ ﷺ نے دس سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت زبیرؓ کے ساتھ یمن کا سفر کیا۔ بحوالہ:تاریخِ محمدؐ۔ایم ڈی فاروق<br />بعض افراد آپ . ﷺ کی عمر15سے 19سال بتاتے ہیں۔ اس سفر میں آپ ﷺ کو تجارت کے اصولوں سے آگاہی ہوئی۔ اس تجارت میں آپ . ﷺ کے ساتھی تاجروں کو کافی منافع حاصل ہوا۔ بحوالہ:سیرت دحلانیہ۔ نقوش رسول نمبر جلد 2، روضہ الاحباب<br />رسالت مآب ﷺ کی عمر تقریباً بارہ سال کی ہوگی جب آپ . ﷺکے چچا جناب ابو طالب نے حسبِ دستور شام کے سفر کا ارادہ کیا آپ ﷺ بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ اس سفر کا ایک واقعہ مشہور ہے ۔ قافلہ نے جب شام کے شہر بصریٰ میں پڑاؤ ڈالا تو یہاں موجود صوامعہ(خانقاہ) کے ایک راہب بحیرا نے آپ ﷺ کے اوصاف کو پہچان لیا اور ابوطالب سے کہا کہ یہ پیغمبر آخر الزماں ہیں، انہیں واپس لے جائیں ، کہیں کوئی انہیں نقصان نہ پہنچادے۔بحوالہ:سیرت النبی ۔ علامہ شبلی، شواہد النبوت<br />ڈاکٹر حمید اﷲ اس سفر کو شام کے بجائے فلسطین کا سفر لکھتے ہیں۔بحوالہ:کتاب محمد رسول اﷲ، بصریٰ کا یہ بازار25دن لگاکرتاتھا۔ بحوالہ:الازمنہ والامکنہ۔ مرزوقی<br />نوجوانی میں حضوراکرم. ﷺ نے تجارت کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ چنانچہ حضور نبی کریم. ﷺ کی عمر بیس سال کی ہوئی تو آپ. ﷺ نے دوبارہ شام کی طرف سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے اور اسی سفر نے آپ دونوں کو زندگی بھر کا رفیق بنادیاتھا۔ بحوالہ:نقوشِ رسول نمبر جلد 2<br />حضور نبی کریم. ﷺ کی عمر جب پچیس برس ہوئی تو آپ ﷺ نے شام کا تیسرا سفر کیا۔ یہ وہ مشہور سفر ہے جس میں حضرت خدیجہؓ کے ملازم ’’میسرہ‘‘ آپ کے ہمسفر بنے۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے بصریٰ میں قیام فرمایا۔ یہاں بھی ایک راہب نسطورا کا تذکرہ ملتاہے۔ جب مکہ مکرمہ واپسی ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کے سامانِ تجارت کو پہلے کی نسبت دوگنامنافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ ﷺ کی صداقت و امانت سے معترف ہوکر حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ سے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ بحوالہ:الوفا، ابن جوزی، سیرت النبیؐ۔شبلی نعمانی، سیرت ابن ہشام<br />حضرت خدیجہؓ اور دیگر قریش تاجروں کے شراکت میں آپ ﷺ نے یمن کا بھی سفر کیا۔ اس سفر کے متعلق سیرت کی کئی کتب میں تذکرہ ملتا ہے۔ بحوالہ:سیرت النبی ۔ شبلی نعمانی، محمد رسول اﷲ ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ، سیرت الرسول من القرآن.....علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کے ساتھ جہاں جہاں سامانِ تجارت بھیجا ان میں ایک مقام’’جرش‘‘ بھی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے اور امام ذہبی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ جرش میں آپ ﷺ دومرتبہ تشریف لے گئے۔ بحوالہ:نور النبراس فی شرح سید الناس، بحوالہ: سیرت النبیؐ۔ شبلی نعمانی<br />ڈاکٹر حمید اﷲنے کتاب ’’رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’اگر یہ لفظ جرُش ہے تو یہ مکے کے جنوب میں طائف سے آگے یمن کے رخ پر اہم قلعہ بند شہری مملکت تھی اور وہاں بڑا بازار لگتاتھا اور اگر یہ جَرش ہے تو یہ مشرقی اردن میں ایک بہت بڑا یونانی شہر تھا‘‘۔ بحوالہ:رسول اﷲ ؐ کی سیاسی زندگی ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ:صفحہ61<br />طبری نے امام شہاب الزہری کے حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے کہ حضرت خدیجہ نے حضور ﷺ اور قریش کے ایک شخص کو اُجرت پر سوقِ حباثہ بھیجا جو تہامہ میں ہے۔ مکے کے جنوب میں چھ دن کے راستہ پر یمن کے رُخ پر۔ حباثہ کا میلہ رجب میں تین دن لگتا تھا۔ بحوالہ:تاریخ طبری۔ جلد دوم، حصہ اول:صفحہ73، یاقوت حموی اس مقام کا صحیح نام حُباشہ بتاتے ہیں۔ بحوالہ:معجم البلدان۔ یاقوت حموی<br />تجارت کی غرض سے بحرین کی دوبندرگاہوں مشقر اور دَبا جو آج مسقط اور دبئی کے نام سے جانا جاتاہے کے سفر کا احوال بھی اکثر روایات میں ملتاہے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ مسند احمد کی حدیث روایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسند احمد (ج4صفحہ206) میں ایک واقعہ تحریر ہے کہ مشرقی عرب یعنی بحرین سے قبیلۂ عبدالقیس کا ایک وفد حضورپاک ﷺ کی حیات کے آخری دور میں مدینہ آکر باریاب ہوا اور آپ ﷺ نے اُن سے ان کے ملک کے بارے میں بعض تفصیلی باتیں بیان کرکے کیفیت پوچھی تو وہ لوگ حیران رہ گئے اور کہنے لگے’’ آپ ﷺ ہمارے ملک کا حال ہم سے زیادہ جانتے ہیں‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا’’میں نے تمہارے ملک کی خوب سیر کی ہے‘‘۔ اس سے گمان ہوتاہے کہ مشتقر اور دَبا کے شہرۂ آفاق میلوں میں آپ ﷺ شاید تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں گئے ہیں اور ممکن ہے کہ یہ بھی حضرت خدیجہ کی شراکت میں کی گئی تجارت ہو۔ مگر اس کا ٹھیک زمانہ معلوم نہیں۔ ممکن ہے حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد بھی آپ کاروبار کے لیے جاتے رہے ہوں۔(رسول اﷲ ﷺ کی سیاسی زندگی۔ ڈاکٹر حمید اﷲ، سیرت النبی۔ شبلی نعمانی، سیر الصحابہ جلد دوم)ایک اور سیرت نگار عبدالقدوس ہاشمی لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کے نکاح کے بعد دس سال تک آپ. ﷺخود بازار میں لین دین کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اس زمانے میں آپ ﷺ نے غالباً تین سفر یمن، نفوذ(نجد) اور نبران (شایدنجران)تک کیے۔ ان کے علاوہ حج کے دنوں میں مکہ کے بازار میں آپ ﷺ بھی حصہ لیتے۔ بحوالہ:فاران ۔ سیرت نمبر 1956ء،بحوالہ: رسول اکرم ؐ بحیثیت تاجر۔ حافظ محمد عارف گھانچی.....علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ایک مغربی مؤرخ مارگولوس نے لکھا ہے کہ ’’ آپ ﷺ نے بحری سفر بھی کیا تھا۔ ان مؤرخ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ. ﷺ مصر بھی تشریف لے گئے اور فلسطین میں بحرِ مردار کی بھی سیاحت کی۔ لیکن تاریخی دفاتر ان واقعات سے خالی ہیں‘‘۔ بحوالہ:سیرت النبیﷺ ۔ شبلی نعمانی ۔ جلد اول<br />ڈاکٹر حمید اﷲ لکھتے ہیں کہ ’’ بعض جدید سوانح نگاروں کا خیال ہے کہ خود سرورِ کائنات ﷺ بھی حبشہ تشریف لے گئے ہوں گے اور آپ ﷺ کی شاہ نجاشی سے ملاقات ہوئی ہوگی۔ ایسے سوانح نگاروں کے اس خیال کا مرکز اور بنیاد اس تعارفی خط کا انداز خطابت ہے جو سرورِ کونین ﷺ نے اپنے چچا زاد جعفر ابن ابو طالب کے ذریعے شاہ نجاشی کے نام بھجوایا تھا۔ یہ خط کافی حد تک بیتکلفانہ اور دوستانہ ہے۔ طبری کی تحقیق کے مطابق اس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے لکھا تھا کہ ’’میں آپ کے پاس اپنے چچا زاد جعفر کو چند اور مسلمانوں کے ساتھ بھیج رہاہوں۔ جب یہ لوگ آپ کے پاس پہنچیں تو آپ ان کی مہمان نوازی کیجیے گا ‘‘۔ بحوالہ:محمد رسول اﷲ۔ صفحہ 33.....ڈاکٹر محمد حمید اﷲ مزید لکھتے ہیں کہ ’’قیاس کیا جاتاہے کہ حضور پاک. ﷺ نے غالباً کبھی حبشہ سفر بھی کیا تھا۔ حبشہ جانے کا سہل راستہ تو وہی ہے جو مہاجرین اسلام نے اختیار کیا تھا کہ شعیبہ (جدہ) میں جہاز پرسوار ہوکر بحرِ احمر کے دوسرے ساحل پر جا اُتریں ، دوسرا راستہ یہ تھا کہ ایلہ (عقبہ) اور جزیرہ نمائے سینا یا شاید غزہ سے ہوکر (جہاں حضرت محمد ﷺ کے پر دادا ہاشم مدفون بھی ہیں)مصر اور پھر دریائے نیل کے کنارے کنارے حبشہ جائیں، دریا کے بہاؤ کی سہولت کے باعث حبشہ سے مصر کشتی میں آنا بھی ممکن ہے۔ اگر یہ قیاس واستنباط بے جانہ سمجھا جائے تو حضرت کے بحری سفر کا بھی اس طرح امکان پیدا ہوجاتاہے۔ بحوالہ:رسول اﷲﷺ کی سیاسی زندگی ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ</div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-30786628586579361752009-10-25T13:41:00.000-07:002010-06-15T09:01:08.639-07:00Map of Mecca<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">مکّہ </span><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">عہدِ نبوی ﷺ میں</span><br /></span><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj33trhOMeaeY5wjlLkL8rEBTYulEySnz0-HchKZUPsi5cjJ6rwQcCH7KaZxHbg7cH73a1IlbISAYZC6dXpx0ZubftFDtAk_cfAewure7IHyegCdztyzWzhqXEJHEXQ1r0qgC3Blzi1nPo/s1600-h/mecca-map.gif" target="_blank"><img style="cursor: pointer; width: 500px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj33trhOMeaeY5wjlLkL8rEBTYulEySnz0-HchKZUPsi5cjJ6rwQcCH7KaZxHbg7cH73a1IlbISAYZC6dXpx0ZubftFDtAk_cfAewure7IHyegCdztyzWzhqXEJHEXQ1r0qgC3Blzi1nPo/s1600/mecca-map.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396640874431506210" border="0" /></a><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-809862311502451772009-10-25T07:18:00.000-07:002010-06-15T09:00:39.609-07:00Cloth & Costume<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">عہدِ نبوی ﷺ کے لباس</span><br /><br />عرب گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEggFCkH13yEodCrbWW0dq2fTzS9VaW4VbbsOZUeIdP4Xcps0XF8vmEl_bIU6-5aP15luyAuzlzJeHLbEi2tV3eQ_AVGVF6IjucYBvpXrIBoW1wnkn7ePCARsgT8VwGtqMhUvkZ0mkTULfI/s1600-h/arab+men.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEggFCkH13yEodCrbWW0dq2fTzS9VaW4VbbsOZUeIdP4Xcps0XF8vmEl_bIU6-5aP15luyAuzlzJeHLbEi2tV3eQ_AVGVF6IjucYBvpXrIBoW1wnkn7ePCARsgT8VwGtqMhUvkZ0mkTULfI/s400/arab+men.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396615811959672882" border="0" /></a><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSLgwegu5mA3Cr2jxBnQiWdWlg7LBm6BeRO2x-CYYZDhsMsPKRDjn9y8E60zGB0PtHxUkenX2HLXC0rTMI83lGNk7uhcN1dNEorAI-nuUI4JZ4ZTL44Ti0mqzJ5sn1tuSMyX6OieUVFeU/s1600-h/arab+women.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSLgwegu5mA3Cr2jxBnQiWdWlg7LBm6BeRO2x-CYYZDhsMsPKRDjn9y8E60zGB0PtHxUkenX2HLXC0rTMI83lGNk7uhcN1dNEorAI-nuUI4JZ4ZTL44Ti0mqzJ5sn1tuSMyX6OieUVFeU/s400/arab+women.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396615822254978802" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ع</span><span style="font-size:130%;">یسائی گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh3d-3yuRbNhUEPKWHGOVmTb2bOw_qRjVIV9jeJPgSjvIr7sXT2w9v1uIgJrozyU7xMFtp6ZuFrW2k6ENvW4USL4nBzEbDknRNQh5vTbMwJ8yYD7xrGkBU-cViDWWDdPeJtbRj2txGgnxY/s1600-h/christian+women.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh3d-3yuRbNhUEPKWHGOVmTb2bOw_qRjVIV9jeJPgSjvIr7sXT2w9v1uIgJrozyU7xMFtp6ZuFrW2k6ENvW4USL4nBzEbDknRNQh5vTbMwJ8yYD7xrGkBU-cViDWWDdPeJtbRj2txGgnxY/s400/christian+women.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396615830909146322" border="0" /></a><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj6hmolBanTIUSgPg6cvXBQ6YG_FizD93JElkGfi40_jLezkd653lZCo0v_7l22DRlFExnh4gk4C5JMqBy186Y1WXUymRyHPdAx4q28cSxpA_MAqi6KcFp5UHqUrXwMoplWnI5fc1tCr0Q/s1600-h/christian.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 316px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj6hmolBanTIUSgPg6cvXBQ6YG_FizD93JElkGfi40_jLezkd653lZCo0v_7l22DRlFExnh4gk4C5JMqBy186Y1WXUymRyHPdAx4q28cSxpA_MAqi6KcFp5UHqUrXwMoplWnI5fc1tCr0Q/s400/christian.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396615828000016898" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">یہودی گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrZUP3HUjsrUcZjcYUnTBpKx2PMfeUouylv6SeKRok21bY3Bb9vJMH3sUsVo_DDgzI5piHTHXhJg9lHltoQ1Eh9hpYwuyE7sOhIumiWLnzT4YBOOM5fUVxIpUNJiK5suvp-HgPyv5RKlY/s1600-h/jew-man.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrZUP3HUjsrUcZjcYUnTBpKx2PMfeUouylv6SeKRok21bY3Bb9vJMH3sUsVo_DDgzI5piHTHXhJg9lHltoQ1Eh9hpYwuyE7sOhIumiWLnzT4YBOOM5fUVxIpUNJiK5suvp-HgPyv5RKlY/s400/jew-man.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396615838660637986" border="0" /></a><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZk0Ee9jZCQH4tvJNiqOjLhJyv7sKCWB1iRckidVP9mDrV7wkrlwkihFFPgq6Y88iSBb2yTuU3BAOK2EmiaC8LEhWqhJ1Io-C1Lg98Hklgvcwxb-7Pp2r56yBg8fFZR4TP2DyJ_3aaTCA/s1600-h/jew-women.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZk0Ee9jZCQH4tvJNiqOjLhJyv7sKCWB1iRckidVP9mDrV7wkrlwkihFFPgq6Y88iSBb2yTuU3BAOK2EmiaC8LEhWqhJ1Io-C1Lg98Hklgvcwxb-7Pp2r56yBg8fFZR4TP2DyJ_3aaTCA/s400/jew-women.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396616462604239666" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">یہودی بادشاہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg70V2q8GE4aRggYb_whPJdPKcjwy3ix7B8ppGNDB7TEj4cs-BlBvbSYo-SJbrDOGWjLnAkD5IL-k5p4G-NcfHybielS-47Q5BUFqt7CuIY1Zg3glMY-P1q6KtyZm4qYt0_Uhkw9CWckk4/s1600-h/jew-king.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg70V2q8GE4aRggYb_whPJdPKcjwy3ix7B8ppGNDB7TEj4cs-BlBvbSYo-SJbrDOGWjLnAkD5IL-k5p4G-NcfHybielS-47Q5BUFqt7CuIY1Zg3glMY-P1q6KtyZm4qYt0_Uhkw9CWckk4/s400/jew-king.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396616472059477666" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">یہودی راہب کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgxSm-7wVzQJ4K-KN5W33MLrKTPd9IJ947AO_iz5vCn09OxvuHaxTK3LbS7n4zjG8wQ_trF97Xm1Ej9LRfKZAePSVtgq9jc1ZkeEn6jp5Tn-COdgXgoOaMsh0qvCNl5kltkznDwI0Q_FOY/s1600-h/jew-religious.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgxSm-7wVzQJ4K-KN5W33MLrKTPd9IJ947AO_iz5vCn09OxvuHaxTK3LbS7n4zjG8wQ_trF97Xm1Ej9LRfKZAePSVtgq9jc1ZkeEn6jp5Tn-COdgXgoOaMsh0qvCNl5kltkznDwI0Q_FOY/s400/jew-religious.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396616475948187698" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی (رومن)گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguktH5obM55Uc2d65LXINq-D-byxmQu7d_7gfOEvIxSGPd9G7jusihB-_7nQvpkg9D77FWnFmRQ9eLLL3zOSWe9w_kH3GAoEhKXfIJxRaRCwLBqmkdchQLoGRJLfJBvjcq0M_xSMGMwnY/s1600-h/byzantine+people.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguktH5obM55Uc2d65LXINq-D-byxmQu7d_7gfOEvIxSGPd9G7jusihB-_7nQvpkg9D77FWnFmRQ9eLLL3zOSWe9w_kH3GAoEhKXfIJxRaRCwLBqmkdchQLoGRJLfJBvjcq0M_xSMGMwnY/s400/byzantine+people.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396616478377726498" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی بادشاہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4IoznFRNEua0mY2DnCcCsdhd3k7_9PPFzsVPkHAsvrope6UKxyShEOgOqs2rSBxkCfj7tB1DE_WciWWq05fO23SW7NuYkBMwgtFTpNrCDR30Ha-YG9q0APh9nydQNIFPwhDqXC2DTLJI/s1600-h/byzantine+king.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 316px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4IoznFRNEua0mY2DnCcCsdhd3k7_9PPFzsVPkHAsvrope6UKxyShEOgOqs2rSBxkCfj7tB1DE_WciWWq05fO23SW7NuYkBMwgtFTpNrCDR30Ha-YG9q0APh9nydQNIFPwhDqXC2DTLJI/s400/byzantine+king.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396616482500090850" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی ملکہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_yQF8sOSIQmXVqfKPLypVg_BOjjHfeHTpG7lUkaMFwdx_Ve-HOyb6Z0QC4nW_HKL-w5BEYvjCApk-C_xcfQRqxdMOBdsgzCyt_fIE8UzL_jcmeAk75r8-VB8VX_FmRItMl88YEyQ3fUQ/s1600-h/byzantine+queen.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_yQF8sOSIQmXVqfKPLypVg_BOjjHfeHTpG7lUkaMFwdx_Ve-HOyb6Z0QC4nW_HKL-w5BEYvjCApk-C_xcfQRqxdMOBdsgzCyt_fIE8UzL_jcmeAk75r8-VB8VX_FmRItMl88YEyQ3fUQ/s400/byzantine+queen.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396617382297849698" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قدیم بازنطینی بادشاہ اور ملکہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_SkoDz-yAIBcQSmEAWE-3z7NZtfSx4b3-hes_IOhmqghJdXvComQdadkDell9LCtjEqQwhiJElSaRlbOCQ6LLsBau_gjaXWvdKJiaF7avxDdsrZmVsTPDnOXdoeQFTrR0spWQIQjObig/s1600-h/byzantine+king+queen.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_SkoDz-yAIBcQSmEAWE-3z7NZtfSx4b3-hes_IOhmqghJdXvComQdadkDell9LCtjEqQwhiJElSaRlbOCQ6LLsBau_gjaXWvdKJiaF7avxDdsrZmVsTPDnOXdoeQFTrR0spWQIQjObig/s400/byzantine+king+queen.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396617384358611458" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی بشپ، پادری کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMC0i4EZZbLuUOC15NVkCPrhNeBAl1TRPffRv6np5JR98l-4-EHAb-U2VsMUPGGLZ8m3OgWhbtZgbLPO8H-YqKlJtiaXJtY7aZ-j8Cdwk9p0QrhjzEq-KZWx35C-rQshITKznktEu2bZg/s1600-h/byzantine+bishop.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 320px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMC0i4EZZbLuUOC15NVkCPrhNeBAl1TRPffRv6np5JR98l-4-EHAb-U2VsMUPGGLZ8m3OgWhbtZgbLPO8H-YqKlJtiaXJtY7aZ-j8Cdwk9p0QrhjzEq-KZWx35C-rQshITKznktEu2bZg/s400/byzantine+bishop.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396617391700030658" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی امراء، درباری کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIxwzPCOAGVV6NRswu5PVnXrNEkrRmOW5T6DQ1R6Jn0j8qAxmyrTGh94oZvJVJFhncya1EwlZ-qr0sDA0cQgrvTyCyBy2rikGGlAMk-veIP1DAmhhigmWErXY7DkH3lt2rMWDIiYPTQ7U/s1600-h/byzantine+rich.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIxwzPCOAGVV6NRswu5PVnXrNEkrRmOW5T6DQ1R6Jn0j8qAxmyrTGh94oZvJVJFhncya1EwlZ-qr0sDA0cQgrvTyCyBy2rikGGlAMk-veIP1DAmhhigmWErXY7DkH3lt2rMWDIiYPTQ7U/s400/byzantine+rich.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396617394457133330" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی ملکہ و کنیز کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh64BE2JTlxDubYORdUT8H4q5xYqHvjE3Cftwalv4MOB84eda3jRqiuNkf-tm0550ROsNhIYpoPElXJ9G_hxJPirrCsprEzCbmUPHxLnIoqJ2TdQo4yXUAfHH9Ir9LgMRiUYFSQmpX2qt8/s1600-h/byzantine+slave.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh64BE2JTlxDubYORdUT8H4q5xYqHvjE3Cftwalv4MOB84eda3jRqiuNkf-tm0550ROsNhIYpoPElXJ9G_hxJPirrCsprEzCbmUPHxLnIoqJ2TdQo4yXUAfHH9Ir9LgMRiUYFSQmpX2qt8/s400/byzantine+slave.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396617399291793938" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بازنطینی سپہ سالار و سپاہی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgUzSXFl6255EhAzN-1ZMufcWeg509boLmC2dPku5_2CLGGLv-mTpCRyjCCbOgjIpn5fCHW-_p_Zvsb2d1X7Jy0pG_j8p__P0fizhEGwL2SyG2ZX5AGLHCybR43ZKgiqJM3qtY8rGY6BvQ/s1600-h/byzantine+soldier.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgUzSXFl6255EhAzN-1ZMufcWeg509boLmC2dPku5_2CLGGLv-mTpCRyjCCbOgjIpn5fCHW-_p_Zvsb2d1X7Jy0pG_j8p__P0fizhEGwL2SyG2ZX5AGLHCybR43ZKgiqJM3qtY8rGY6BvQ/s400/byzantine+soldier.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618119810399570" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اینگلو ساکسن بادشاہ اور ملکہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjQExmYogKIPTlm_xeTmebQ9fXa-HpT-B3aetL6SjR3ARjKEQ3hXgcCF-ck4-xxJ2kmigWb8TP1uwONhVxygdaG9bBLxRpaAwWVxhCwruOrU1VN3SvSzKt385xFB_AYy8navoB-Eziz90k/s1600-h/anglo-saxon-king-queen1.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 313px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjQExmYogKIPTlm_xeTmebQ9fXa-HpT-B3aetL6SjR3ARjKEQ3hXgcCF-ck4-xxJ2kmigWb8TP1uwONhVxygdaG9bBLxRpaAwWVxhCwruOrU1VN3SvSzKt385xFB_AYy8navoB-Eziz90k/s400/anglo-saxon-king-queen1.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618123802299778" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ساکسن سردار اور اس کی بیوی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-04JJ_Nv79jjT3Syy7T7kra4-mMTB1x1RN2iKblJ2BQ3gyyt6rwUoq-9jYXWTn5_tEO4venHB-h3Z1msbMInDE7XvgSHuJoqYMkQ2rWhbDsO480Csby7LSI9O9ksT48W0ecIdgXVxPUE/s1600-h/saxon-chief-lady-6th-century.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 370px; height: 371px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-04JJ_Nv79jjT3Syy7T7kra4-mMTB1x1RN2iKblJ2BQ3gyyt6rwUoq-9jYXWTn5_tEO4venHB-h3Z1msbMInDE7XvgSHuJoqYMkQ2rWhbDsO480Csby7LSI9O9ksT48W0ecIdgXVxPUE/s400/saxon-chief-lady-6th-century.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396621584080343682" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اینگلو ساکسن مرد و سپاہی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-Q0mlK_hDRPAAmfEKjVTJxKPyLPNMHo9hsp-P44bduhFXC133Mucx-wl6ftMP28cMKW8qEflmvo0nCNqlEnd-hFvjp7o4iDEOh-9yp1oI5JAbTGrWUxn3eUmrGK84IssBo8B2AnU1nVk/s1600-h/anglo-saxon-man-warriorjpg.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 359px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-Q0mlK_hDRPAAmfEKjVTJxKPyLPNMHo9hsp-P44bduhFXC133Mucx-wl6ftMP28cMKW8qEflmvo0nCNqlEnd-hFvjp7o4iDEOh-9yp1oI5JAbTGrWUxn3eUmrGK84IssBo8B2AnU1nVk/s400/anglo-saxon-man-warriorjpg.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618128566163506" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اینگلو ساکسن خواتین و کنیز کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhzFv3_G20LRgYkZRYT05LkOB4rOZNd5PAO3oIoAGEP8w_ltLNNP4myFBAvK3VQrAAwhpkoAKHY1WzUrswy88KlKKzkDJIMvnCdFolvbP0LUcy1ZKKrWUvuaDvPRvg1mQc0Q6fF7IP2pzs/s1600-h/anglo-saxon-lady-woman.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 348px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhzFv3_G20LRgYkZRYT05LkOB4rOZNd5PAO3oIoAGEP8w_ltLNNP4myFBAvK3VQrAAwhpkoAKHY1WzUrswy88KlKKzkDJIMvnCdFolvbP0LUcy1ZKKrWUvuaDvPRvg1mQc0Q6fF7IP2pzs/s400/anglo-saxon-lady-woman.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618132429976242" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">برٹش سپہ سالار و سپاہی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWaDQea9RIBv-8tRr37TrJhyphenhyphenZDSpMRJ4BUe5m7qU2-fUzmtjtC27gz54yceoRHS1XePJE11XruhPrI09V6ATgeQRnZwdtksuNI_nnpHq1MdWuTASysxMbE6k-DWiehV7ISa_n7-LoeScE/s1600-h/british-chief-soldier3.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 334px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWaDQea9RIBv-8tRr37TrJhyphenhyphenZDSpMRJ4BUe5m7qU2-fUzmtjtC27gz54yceoRHS1XePJE11XruhPrI09V6ATgeQRnZwdtksuNI_nnpHq1MdWuTASysxMbE6k-DWiehV7ISa_n7-LoeScE/s400/british-chief-soldier3.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618143581712546" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">کارولنژی (فرانس ) بادشاہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjbKqd3vBPS8rK95IGkarS9EDENx7vjDS1L9XTLwOQjKmmz6aUE5BlYc8sysEzP3EgaPhU6pl_OTpsiUdXAPiBjjbKGNfxJhbbMF8740N_XbivWAtB_pZte-I1O_iiRnc-zB75WKtnmNUs/s1600-h/Carolingians-king.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjbKqd3vBPS8rK95IGkarS9EDENx7vjDS1L9XTLwOQjKmmz6aUE5BlYc8sysEzP3EgaPhU6pl_OTpsiUdXAPiBjjbKGNfxJhbbMF8740N_XbivWAtB_pZte-I1O_iiRnc-zB75WKtnmNUs/s400/Carolingians-king.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618948207872370" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">کارولنژی (فرانس ) ملکہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjC39r8ikNo706QQTp3UtqRWjY4zNDJPg02xLowXxR-N4oNX8USMOhmAJu9_pXmNrobebeX_NgPesA73npR4EO177VE8PzN3vUMIf3YLRzqbyAzvUC6sObgToq0fpgHVmHswaKaiEb0r4k/s1600-h/Carolingians-queen.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjC39r8ikNo706QQTp3UtqRWjY4zNDJPg02xLowXxR-N4oNX8USMOhmAJu9_pXmNrobebeX_NgPesA73npR4EO177VE8PzN3vUMIf3YLRzqbyAzvUC6sObgToq0fpgHVmHswaKaiEb0r4k/s400/Carolingians-queen.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618956901779138" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">کارولنژی (فرانس ) درباری کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhKtHNlvfYnNULCwrlnVwWdqHlr-Ef5a3dCNBO8QUUxH2V8LSSaGEV2XTBMw6fcFZntbUAAq9FCadA_38fu04UF3xjpMTASqgN5DTtVezXE-5JhCH8hv4SGFmohsW-ESiI3Ym41CCgMgBg/s1600-h/Carolingians-king-court.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhKtHNlvfYnNULCwrlnVwWdqHlr-Ef5a3dCNBO8QUUxH2V8LSSaGEV2XTBMw6fcFZntbUAAq9FCadA_38fu04UF3xjpMTASqgN5DTtVezXE-5JhCH8hv4SGFmohsW-ESiI3Ym41CCgMgBg/s400/Carolingians-king-court.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618959853364818" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">کارولنژی (فرانس ) بشپ و سپاہی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgrcEjxwituPuP4zujKcZ9O3AWEBn4P9qN2yP-RhG_zQebVg-pK8Qvt7A2PrugnFMIR0KcVvEKPetIpcBSbJeeOFZcb4BvjbtSe7Hhyphenhyphen3Jb77Eyx7aNV-LWpG7OwheUwE8vePxKqfYvfbd4/s1600-h/Carolingian-frankish-bishop-soldier.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgrcEjxwituPuP4zujKcZ9O3AWEBn4P9qN2yP-RhG_zQebVg-pK8Qvt7A2PrugnFMIR0KcVvEKPetIpcBSbJeeOFZcb4BvjbtSe7Hhyphenhyphen3Jb77Eyx7aNV-LWpG7OwheUwE8vePxKqfYvfbd4/s400/Carolingian-frankish-bishop-soldier.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618961500958402" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">مصری گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEieiiD23QJTcNbOvzNPcvHa4W7KvqtnVNePUaEZMhK8DMMnFXTB25A5uCzlQJn3XNSA8J1as08CRJwFQLF_kH_SZIhn3CtFolmNjXrFJMjUMMQfCQ6JTD0TZLxXUJyqYPBvuf9q84bKELE/s1600-h/Egyptian+people.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEieiiD23QJTcNbOvzNPcvHa4W7KvqtnVNePUaEZMhK8DMMnFXTB25A5uCzlQJn3XNSA8J1as08CRJwFQLF_kH_SZIhn3CtFolmNjXrFJMjUMMQfCQ6JTD0TZLxXUJyqYPBvuf9q84bKELE/s400/Egyptian+people.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396618965061294450" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">مصری بادشاہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjlhs0-_GqS8nJvSyDiGIqZ2yEeMDMmOoJKkwcVcyyLRAiTgpTSp5Zd3wpq5sq84OADgqAjVh9TccY2kN1Y5uQgMCLarHEmTLMTD65aYFqOuV6hS_rdisCzYukUsI0Y7g5ChjND0G5XeQM/s1600-h/Egyptian+king+soldiar.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjlhs0-_GqS8nJvSyDiGIqZ2yEeMDMmOoJKkwcVcyyLRAiTgpTSp5Zd3wpq5sq84OADgqAjVh9TccY2kN1Y5uQgMCLarHEmTLMTD65aYFqOuV6hS_rdisCzYukUsI0Y7g5ChjND0G5XeQM/s400/Egyptian+king+soldiar.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396619665103933842" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">مصری ملکہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_WJtij2sfWaLSGB6p9atsJ-VjDVfISdnSLhoSUdUfcK9mjKkfmXP_npnXgaOmOWkDFoznCl4QePAitLLU1d84CUmHxq6idyFsRawJPqdUBPOc_Mit5VNYNNOGhBDgluW9SxS6pG8oEaU/s1600-h/egyptian-queen.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_WJtij2sfWaLSGB6p9atsJ-VjDVfISdnSLhoSUdUfcK9mjKkfmXP_npnXgaOmOWkDFoznCl4QePAitLLU1d84CUmHxq6idyFsRawJPqdUBPOc_Mit5VNYNNOGhBDgluW9SxS6pG8oEaU/s400/egyptian-queen.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396619670294111410" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">مصری درباری کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgGwPOvBYxhX0jIkwjnDkZ2ftuBU5gGVG7Qx17qW3a32T-qTWtTkDEXy3crCI530wbewvLENJQm774mY1Dj-pS_PtVnJgdv7MCOxJ1YSP65waAd2KixRkFgRQiBAPE1cqChyphenhyphendLsX1hwsig/s1600-h/egyptian-court.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgGwPOvBYxhX0jIkwjnDkZ2ftuBU5gGVG7Qx17qW3a32T-qTWtTkDEXy3crCI530wbewvLENJQm774mY1Dj-pS_PtVnJgdv7MCOxJ1YSP65waAd2KixRkFgRQiBAPE1cqChyphenhyphendLsX1hwsig/s400/egyptian-court.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396619676136358882" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">فرانک بادشاہ اور ملکہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhtZ-0XPqZubIsRBYgOtYeSJnq0bYp0XEYrhmr0TI3GdipI_v8UsVm9AwiJKcTt1PYlH0aSLw_xx8BAexRkM-MQk5pz6WdnRzCWLDF4lMb5E66NJ8crryrfv6h-fAGphvK0Hzwty45yTBU/s1600-h/frank+king+queen.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhtZ-0XPqZubIsRBYgOtYeSJnq0bYp0XEYrhmr0TI3GdipI_v8UsVm9AwiJKcTt1PYlH0aSLw_xx8BAexRkM-MQk5pz6WdnRzCWLDF4lMb5E66NJ8crryrfv6h-fAGphvK0Hzwty45yTBU/s400/frank+king+queen.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396619680855247410" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">فرانک شاہی افراد کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgqju7Dza7be9mAYEi91_aZPl6o4UxJZys5v1-JpV-Omhl7TqDMh5JCXCVHkwV9PZPUn8fH-vGuJN6wCbSju9UVBa_nazig2HexwgjsV03rpJk_QCTBB-Mz26SRw_lV7zaDDf7pL6xgaUA/s1600-h/frank+people.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgqju7Dza7be9mAYEi91_aZPl6o4UxJZys5v1-JpV-Omhl7TqDMh5JCXCVHkwV9PZPUn8fH-vGuJN6wCbSju9UVBa_nazig2HexwgjsV03rpJk_QCTBB-Mz26SRw_lV7zaDDf7pL6xgaUA/s400/frank+people.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620267220185218" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">فرانک گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEidP0pOI9WgJKIWhjwSHjS9LYKHlaFou1LBDbaIXIM2WRpN4eOfmhYXlM0J2Sz9L7LaXt7VgKd5c8BndSNNrYavm9Mgc4zaS2Jc59HyUbSGCXAVgTdyvXMzcOxM52eEiKT2nYcdkMs3aqc/s1600-h/frankish-lady-noble.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 348px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEidP0pOI9WgJKIWhjwSHjS9LYKHlaFou1LBDbaIXIM2WRpN4eOfmhYXlM0J2Sz9L7LaXt7VgKd5c8BndSNNrYavm9Mgc4zaS2Jc59HyUbSGCXAVgTdyvXMzcOxM52eEiKT2nYcdkMs3aqc/s400/frankish-lady-noble.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396619685165933474" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ترک اور مراکشی گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjaBO_T0zVpClzzg_lhtUMgTRK2wkRQHbF-wMscMnfUWaWGk4M5MueexaeR8dfZumIB3mFcQFzm60L9f0PTCPMQNiJ3UOF2zT0wS_uWLqRrDUMNXXYspS84D8VdStDVAwhSS85V5T3bjfU/s1600-h/Egyptians-Moors-Turks.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjaBO_T0zVpClzzg_lhtUMgTRK2wkRQHbF-wMscMnfUWaWGk4M5MueexaeR8dfZumIB3mFcQFzm60L9f0PTCPMQNiJ3UOF2zT0wS_uWLqRrDUMNXXYspS84D8VdStDVAwhSS85V5T3bjfU/s400/Egyptians-Moors-Turks.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620275835532402" border="0" /></a><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXe9QCqa-19fN5LEf8VN9Bqkjeqw2HR8r11EAF8OEIZXEpjYTBeb475RvgRycxzhDRzBucCt8MWsGjhRD6EFZDBbPTZHcKwOo4yckVgWdnAUrHtNHC3t4A0AKj5cZ66UBHAZolsl0ZspY/s1600-h/Egyptians-Moors-Turks2.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXe9QCqa-19fN5LEf8VN9Bqkjeqw2HR8r11EAF8OEIZXEpjYTBeb475RvgRycxzhDRzBucCt8MWsGjhRD6EFZDBbPTZHcKwOo4yckVgWdnAUrHtNHC3t4A0AKj5cZ66UBHAZolsl0ZspY/s400/Egyptians-Moors-Turks2.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620280948701858" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">مراکشی شاہی خاندان کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjYe6DDMacwWHa-BwTAruCWLEzKXGzjMKBtEnNWYZCgiam_g53hOhV5DGGyET54XxyK5U8_nqVQNv96QuYLqd8jE6MhdZuO7FZKA38MxwK4HowckZ27j2ucfq44eh7eVZNI2BB1SyGW-TM/s1600-h/moorish-prince.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjYe6DDMacwWHa-BwTAruCWLEzKXGzjMKBtEnNWYZCgiam_g53hOhV5DGGyET54XxyK5U8_nqVQNv96QuYLqd8jE6MhdZuO7FZKA38MxwK4HowckZ27j2ucfq44eh7eVZNI2BB1SyGW-TM/s400/moorish-prince.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620283271365538" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">فارس کے بادشاہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiNZ4TqxO4obvIK0p4nYheYMRRFoA2dkTW7Bvaa1ZfqaxZmAQvF-o4ppb2Yy6TyvEvWqFmLhDwpjK1b110zvklwxUPM5R7Vkq5zFfSDUVA-8ZQTBaOYGGud1Vjw6pRsL5Xe3nDLYa_deMw/s1600-h/persian.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiNZ4TqxO4obvIK0p4nYheYMRRFoA2dkTW7Bvaa1ZfqaxZmAQvF-o4ppb2Yy6TyvEvWqFmLhDwpjK1b110zvklwxUPM5R7Vkq5zFfSDUVA-8ZQTBaOYGGud1Vjw6pRsL5Xe3nDLYa_deMw/s400/persian.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620296486103666" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قدیم فارس کے بادشاہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhNc6H8QtT8ezzOrLHg296EjoXfGJiwjvc59TWS9XcFqSHMxDI1T1o477SU8kEB9e38iqVZ24HbIvPiTkkM6RhEiYXdHDwFLn1S2qLxvHiYKjc4bwrQGDX716QY8MTiMEC1Rhf4vpQtEEg/s1600-h/persian1.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhNc6H8QtT8ezzOrLHg296EjoXfGJiwjvc59TWS9XcFqSHMxDI1T1o477SU8kEB9e38iqVZ24HbIvPiTkkM6RhEiYXdHDwFLn1S2qLxvHiYKjc4bwrQGDX716QY8MTiMEC1Rhf4vpQtEEg/s400/persian1.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620957954305138" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قدیم فارس کے درباری کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjK1OHhUhjiGBgd0b8rvJOiiJIwat7MxgF6gwVIIx9wfJvdvxqYRretS3FJqOIxjwWYV-l_06CL0jPwYUcX7aL6K0XoaFPH2PvrVcxZozExDJo5SF3IUWmH5q8kaio3ljU8oFTjREv16EI/s1600-h/persian-court.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjK1OHhUhjiGBgd0b8rvJOiiJIwat7MxgF6gwVIIx9wfJvdvxqYRretS3FJqOIxjwWYV-l_06CL0jPwYUcX7aL6K0XoaFPH2PvrVcxZozExDJo5SF3IUWmH5q8kaio3ljU8oFTjREv16EI/s400/persian-court.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620964876162162" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">فارس کے سپاہی و شاہی افراد کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhb1SIl7rX4Zons3Oudx6Gksxm4cyN67dTp-rVLM_BIg8HAmWxedc_26TWRg0UcmR7k3yzp_mzGuvNbs9cJO3EYp_YhObeoEDayPFo85Qn6q1jC2EadyHdCASNJv0DuJ0xw7Js4TDVZDdQ/s1600-h/persian-soldier-nobleman.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhb1SIl7rX4Zons3Oudx6Gksxm4cyN67dTp-rVLM_BIg8HAmWxedc_26TWRg0UcmR7k3yzp_mzGuvNbs9cJO3EYp_YhObeoEDayPFo85Qn6q1jC2EadyHdCASNJv0DuJ0xw7Js4TDVZDdQ/s400/persian-soldier-nobleman.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620974197539730" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قدیم رومی سپاہی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiYbgzS9EVAkMY6-nJw4Vci5qAZD3Od-EUvw3Ri1ocj6bJheVj72O3TYPobTM0bePxll6A3pv3eV2b8rdpUcjCJCGMjc1Kfy5Tk30qdm7R_JSbz_G-bb9BcSOslNZV4USMl-HWuQGbmxN4/s1600-h/roman+soldier.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiYbgzS9EVAkMY6-nJw4Vci5qAZD3Od-EUvw3Ri1ocj6bJheVj72O3TYPobTM0bePxll6A3pv3eV2b8rdpUcjCJCGMjc1Kfy5Tk30qdm7R_JSbz_G-bb9BcSOslNZV4USMl-HWuQGbmxN4/s400/roman+soldier.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620975997536322" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ٹیوٹانک قبائل(جرمن)گھرانہ کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhyqv0Fjg8GsFWI42x5F640m_R6kS-8pUz3YbNUggsogkN8d5d4wdPXfH0IOxXk5CnKk6W7ErdEeFcvrkdgtccNrsg0S1fKPyTyRj6bRTpKoKFmKyao8TKtK9liTNRznXwpBOvzQVt4xxU/s1600-h/Teutonic+tribe.jpg"><img style="cursor: pointer; width: 319px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhyqv0Fjg8GsFWI42x5F640m_R6kS-8pUz3YbNUggsogkN8d5d4wdPXfH0IOxXk5CnKk6W7ErdEeFcvrkdgtccNrsg0S1fKPyTyRj6bRTpKoKFmKyao8TKtK9liTNRznXwpBOvzQVt4xxU/s400/Teutonic+tribe.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396620983671973906" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ٹیوٹانک قبائل(جرمن)سردار کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgFMVECQvza-nM-aGaZZNW5q7kVyl1f5XxWVLQdFwMLBfy-dxPZ8kmKF8nlj9Qu92gELtwmBx-2gIVJWvPdBoiM3m2k3XgxdxiAjC-HcN9LUqOGXHQkFcnbfAtk8aav1Cyrbl8XRicthx4/s1600-h/Teutonic+Tribes3.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 318px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgFMVECQvza-nM-aGaZZNW5q7kVyl1f5XxWVLQdFwMLBfy-dxPZ8kmKF8nlj9Qu92gELtwmBx-2gIVJWvPdBoiM3m2k3XgxdxiAjC-HcN9LUqOGXHQkFcnbfAtk8aav1Cyrbl8XRicthx4/s400/Teutonic+Tribes3.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396621567720457362" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ٹیوٹانک قبائل(جرمن)سپاہی کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiukohfC80is4if15vEyWwrndkpDUMf5OmhK78YS9RB_pTH0CYxNWsI8L2p-iuYSeXqxYgKjofQKBkC214nq0jcr0CCu6ZATi9MrdTK7av1xJLOudthn4Ub9ldkQV8ZO6YXQFDS_lQ2ZbQ/s1600-h/Teutonic+Tribes4.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 316px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiukohfC80is4if15vEyWwrndkpDUMf5OmhK78YS9RB_pTH0CYxNWsI8L2p-iuYSeXqxYgKjofQKBkC214nq0jcr0CCu6ZATi9MrdTK7av1xJLOudthn4Ub9ldkQV8ZO6YXQFDS_lQ2ZbQ/s400/Teutonic+Tribes4.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396621574624475090" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قدیم ٹیوٹانک قبائل(جرمن)جنگجو کا لباس<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOOQlGrjeA7n3QU549j7L39QEW5AJM8toL2zjXmkeTDuDmNRCUShMNq7foTeTNGSG-tjzt9RAW4yeEn_YxafPo0ZHwQJTCbNaVUY-3hK2MP8qNwASRzu_AkfSZ_0q6XYLnxXnM1COhWwA/s1600-h/The+Teutonic+Tribes2.JPG"><img style="cursor: pointer; width: 317px; height: 400px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOOQlGrjeA7n3QU549j7L39QEW5AJM8toL2zjXmkeTDuDmNRCUShMNq7foTeTNGSG-tjzt9RAW4yeEn_YxafPo0ZHwQJTCbNaVUY-3hK2MP8qNwASRzu_AkfSZ_0q6XYLnxXnM1COhWwA/s400/The+Teutonic+Tribes2.JPG" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396621577586426786" border="0" /></a><br /></span></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-43393078339746998562009-10-25T03:13:00.000-07:002010-06-15T08:58:42.993-07:00Population<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:130%;">عہدِ</span></span><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:130%;"> نبوی ﷺ میں دنیا کی آبادی</span></span><br /><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjul1pmWj8JmPSfFwqXFkMUAjxbevOaUDmWKbsvkRM5RnrRbZ6Jfn8bazR3uvqEThFVAPA9LNPaNKxXcBf2dP4Eh4sdgh5gHprltLx5B_NjSUCNk5STycSX-IQQm1CdpBqIxmFNrtWn2CU/s1600-h/population.gif"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 264px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjul1pmWj8JmPSfFwqXFkMUAjxbevOaUDmWKbsvkRM5RnrRbZ6Jfn8bazR3uvqEThFVAPA9LNPaNKxXcBf2dP4Eh4sdgh5gHprltLx5B_NjSUCNk5STycSX-IQQm1CdpBqIxmFNrtWn2CU/s400/population.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396539186691615042" border="0" /></a><br /><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;">چھٹی صدی عیسوی میں پوری دنیا کی آبادی تقریبا </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" >30 کروڑ</span><span style="font-size:100%;"> تھی</span></span></span></span><br />جس میں <span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;">یورپ کی آبادی </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" >4 کروڑ 50 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> </span><span style="font-size:100%;"> تھی</span></span></span></span><br />رومن سلطنت<span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;"> کی آبادی </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" > 3 کروڑ 60 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> </span><span style="font-size:100%;"> تھی<br /></span></span></span></span>فارس<span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;"> کی آبادی </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" >50 لاکھ سے 60 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> </span><span style="font-size:100%;"> تھی<br /></span></span></span></span>عرب<span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;"> کی آبادی </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" >50 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> </span><span style="font-size:100%;"> تھی<br /></span></span></span></span>مصر<span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;"> کی آبادی </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" >30 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> </span><span style="font-size:100%;"> تھی<br /></span></span></span></span>شمالی افریقہ<span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;"> کی آبادی </span><span style="color: rgb(255, 102, 0);font-size:100%;" >30 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> </span><span style="font-size:100%;"> تھی<br /></span></span></span></span><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:100%;"><br /><br /></span></span></span></span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;">یورپ کی آبادی</span></span><br /></div><div style="text-align: right;"><br /><br /><span style="color: rgb(153, 51, 0); font-weight: bold;font-size:100%;" ><span style="color: rgb(51, 204, 0);"><span style="color: rgb(153, 51, 0);">ملک/ مقام</span></span></span><span style="color: rgb(153, 51, 0); font-weight: bold;font-size:100%;" > ------- </span><span style="color: rgb(153, 51, 0); font-weight: bold;font-size:100%;" ><span style="color: rgb(51, 204, 0);"> <span style="color: rgb(153, 51, 0);">سن 500ءمیں</span></span></span><span style="color: rgb(153, 51, 0); font-weight: bold;font-size:100%;" > ------- </span><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(153, 51, 0); font-weight: bold;"> سن 650ءمیں</span></span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="font-weight: bold;">جنوبی یورپ</span></span><br /><span style="font-size:100%;">یونان، بلکان --------- 50 لاکھ ----------- 30 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">اطالیہ (اٹلی)</span><span style="font-size:100%;"> -------- </span><span style="font-size:100%;"> 40 لاکھ </span><span style="font-size:100%;"> ----------- </span><span style="font-size:100%;"> 25 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">پرتگال، اسپین</span><span style="font-size:100%;"> ------- </span><span style="font-size:100%;"> 40 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> ----------- </span><span style="font-size:100%;"> 35 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(51, 102, 255);">ٹوٹل جنوبی یورپ</span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" > --- </span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" ><span style="color: rgb(51, 102, 255);"> 1 کروڑ 30 لاکھ</span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" > ---- </span><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(51, 102, 255);"> 90 لاکھ</span></span><br /><br /><span style="font-size:100%;"><span style="font-weight: bold;">مغربی/وسطی </span></span><span style="font-size:100%;"><span style="font-weight: bold;">یورپ</span></span><br /><span style="font-size:100%;">فرانک(فرانس) ---------- 50 لاکھ ----------- 30 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">جزائر برطانیہ</span><span style="font-size:100%;"> ------------ </span><span style="font-size:100%;">5 لاکھ </span><span style="font-size:100%;"> ------------ </span><span style="font-size:100%;">5 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">جرمنی/سکینڈنیویا</span><span style="font-size:100%;"> -------- </span><span style="font-size:100%;">35 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> ----------- </span><span style="font-size:100%;">20 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(51, 102, 255);">ٹوٹل مغربی وسطی یورپ</span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" > -- </span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" ><span style="color: rgb(51, 102, 255);">90 لاکھ</span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" > ---------- </span><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(51, 102, 255);">55 لاکھ</span></span><br /><br /><span style="font-size:100%;"><span style="font-weight: bold;">مشرقی </span></span><span style="font-size:100%;"><span style="font-weight: bold;">یورپ</span></span><br /><span style="font-size:100%;">سلاویہ ------------- 50 لاکھ ------------ 30 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">روس</span><span style="font-size:100%;"> -------------- </span><span style="font-size:100%;">50 لاکھ </span><span style="font-size:100%;"> ------------ </span><span style="font-size:100%;">60 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">پولینڈ / لتھوانا</span><span style="font-size:100%;"> ------- </span><span style="font-size:100%;">20 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> ----------- </span><span style="font-size:100%;">20 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;">ہنگری</span><span style="font-size:100%;"> ------------- </span><span style="font-size:100%;">5 لاکھ</span><span style="font-size:100%;"> ------------- </span><span style="font-size:100%;">5 لاکھ</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(51, 102, 255);">ٹوٹل مشرقی یورپ</span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" > --- </span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" ><span style="color: rgb(51, 102, 255);"> 1 کروڑ 25 لاکھ</span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" > ---- </span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:100%;" ><span style="color: rgb(51, 102, 255);"> 1 کروڑ 15 لاکھ</span></span><br /><br /><br /><span style="font-size:100%;"><span style="font-size:130%;">آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے شہر</span></span><br /><br /><span style="font-size:100%;">وہ شہر جن کی آبادی <span style="color: rgb(204, 51, 204);">50 ہزار</span> سے <span style="color: rgb(204, 51, 204);">1 لاکھ 25 ہزار</span> تک تھی</span><br /><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 528ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">اسکندریہ، انطاکیہ، قسطنطنیہ، روم</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 737ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">قسطنطنیہ</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 1000ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">قسطنطنیہ، بغداد</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 1212ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">قسطنطنیہ، بغداد، قاہرہ</span><br /><br /><span style="font-size:100%;">وہ شہر جن کی آبادی <span style="color: rgb(204, 51, 204);">23 ہزار</span> سے <span style="color: rgb(204, 51, 204);">49 ہزار</span> تک تھی</span><br /><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);"> سن 528ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">قرطاجنہ، تیسیفون (فارس)</span><span style="font-size:100%;">، سلانيك(یونان)</span><span style="font-size:100%;">، افیسوس</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 737ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">اسکندریہ، انطاکیہ،بصرہ، دمشق</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 1000ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">اسکندریہ، انطاکیہ،بصرہ، قاہرہ، قرطبہ</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 1212ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">اسکندریہ، انطاکیہ،بصرہ، دمشق، میلان، سمرقند، شیراز، تیونس، وینس</span><br /><br /><span style="font-size:100%;">وہ شہر جن کی آبادی <span style="color: rgb(204, 51, 204);">15 ہزار</span> سے <span style="color: rgb(204, 51, 204);">22 ہزار</span> تک تھی</span><br /><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);"> سن 528ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">میلان(اٹلی)، ملطس(یونان)،رافینا(اٹلی)، ری(فارس)، سردینیا(اٹلی)، سمرنہ(یونان)، </span><span style="font-size:100%;">ہمدان، اسطخر</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 737ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">تیسیفون(فارس)، فسطاط، ہمدان، قط، واسط، نشاپور، ری، سلانیک، شیراز، طلیطہ، موصل</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 1000ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">مکہ، دمشق</span><span style="font-size:100%;">، فیض، ہمدان، اصفہان، واسط، نشاپور، ری، اشبیلیہ، شیراز، طلیطہ، پالرمو(صقلیہ)، قیروان(تیونس)، موصل</span><br /><span style="font-size:100%;"><span style="color: rgb(102, 0, 204);">سن 1212ء میں</span></span><br /><span style="font-size:100%;">مکہ، حلب، برشا، بروج، بخارہ، قرطبہ، فلورنس، خنت، </span><span style="font-size:100%;">ہمدان، ہرات، اصفہان، قونیہ، لندن، مراکش، ناپولی، نووگورود(روس)، بادونا، پیرس، پیسا، قوا، رباط، واسط، نشاپور، ری، اشبیلیہ، تبریز، طلیطہ، پالرمو، قیروان، موصل، سناء، فیرونا، روم</span><br /><br /><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-9942693411470441472009-10-24T16:46:00.001-07:002010-06-15T08:58:26.754-07:00World War<div style="text-align: right;"><br /></div><div style="text-align: right; font-weight: bold;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">عہدِ</span></span><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;"> نبوی ﷺ کی عالمی جنگیں</span><br /></span><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh0QT19dazyoxeZ8OP6nL0Lu_lnMTmfGUnQeEwcU-yhhr_Y7-Vpo8C6NCFAgnMpNUaj3NGEDfICO5RdI_cryTfWCCNj0RLu4V3y7iAMH6WmluRl7c2fr43WAeaShzX7r8NxeZiIGOPNz3M/s1600-h/battle.jpg" target="_Blank"><img style="cursor: pointer; width: 400px; height: 231px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh0QT19dazyoxeZ8OP6nL0Lu_lnMTmfGUnQeEwcU-yhhr_Y7-Vpo8C6NCFAgnMpNUaj3NGEDfICO5RdI_cryTfWCCNj0RLu4V3y7iAMH6WmluRl7c2fr43WAeaShzX7r8NxeZiIGOPNz3M/s400/battle.jpg" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396325106185461474" border="0" /></a><br /><span style="font-size:130%;">سن 550ء سے 650ء<br /></span><br /><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi-2JXA90hN3BTPdNj9Sz2m9nP3QclKPmD3gT8dNQmKY_mS9Lwas8jFxF91ddiUoCqRc5wJexe4R0Y0joAAFKhnf8BtjDnm_ACtX6AYn3dNc9iwil_GylvrpgzEmkX0zui6h8hl0FmoEA0/s1600/war1.gif" target="_Blank"><img style="width: 550px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi-2JXA90hN3BTPdNj9Sz2m9nP3QclKPmD3gT8dNQmKY_mS9Lwas8jFxF91ddiUoCqRc5wJexe4R0Y0joAAFKhnf8BtjDnm_ACtX6AYn3dNc9iwil_GylvrpgzEmkX0zui6h8hl0FmoEA0/s1600/war1.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396316079412639410" border="0" /></a><br /><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiE8J7ALh7cKUm98NkzPqukq_toU5to5YvqnMpbDs7bzstcexx0g24TEohZjE3yw9N899TUYH2uRUEmSnbGzB7GqnrP9u55M0weIiZXUg4dorxXNbPWCukVC7dnEw4PL5lELDceN8qrGak/s1600/war2.gif" target="_Blank"><img style="width: 550px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiE8J7ALh7cKUm98NkzPqukq_toU5to5YvqnMpbDs7bzstcexx0g24TEohZjE3yw9N899TUYH2uRUEmSnbGzB7GqnrP9u55M0weIiZXUg4dorxXNbPWCukVC7dnEw4PL5lELDceN8qrGak/s1600/war2.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5396316089542319266" border="0" /></a><br /><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" > </span><span style="font-size:130%;">عہد نبوی</span><span style="font-size:130%;">ﷺ</span><span style="font-size:130%;"><br /></span><span style="font-size:130%;"> ساکسون کی مہمات<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" > </span><span style="font-size:130%;">گاتھ۔ لمبارڈ جنگ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">روم ۔ فارس جنگ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">جنگِ </span><span style="font-size:130%;">چالوکیہ سلطنت<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">غزنی ۔ لخمی کے درمیان جنگ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">جنگِ ایدلفرتھ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">روم ۔آورین جنگ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">چالوکیہ ۔ ہرش وردھن جنگ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;"> چین ۔ چام کی جنگ<br /></span><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">سینو۔کورین جنگ</span><br /><span style="color: rgb(51, 102, 255);font-size:130%;" ><span style="color: rgb(153, 51, 153);"> </span></span><span style="font-size:130%;">غزواتِ نبیﷺ<br />روم ۔ آورین جنگ<br />جنگِ آسولڈ<br />عرب ۔ روم جنگ<br />عرب - فارس جنگ<br />چین ۔ ترک جنگ<br />سینو ۔تبت<br />سینو۔کورین<br />سینو۔ہند<br /><br /><br /><br /></span> </div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-2508124154356736322009-10-23T16:10:00.000-07:002010-06-15T08:58:09.885-07:00War of Prophet<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">غزواتِ رسولﷺ</span><br /></span></div><div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;">غزوۂ ابواء صفر:--- 2ہجری623ء اگست623ء<br />غزوۂ بواط</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> ربیع الاول2ہجری ستمبر623ء<br />غزوۂ ذی عُشیرہ</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> جمادی الاخر2ہجری دسمبر623ء<br />غزوۂ سفوان</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> جمادی الاخر2ہجری دسمبر623ء<br />غزوۂ بدر</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 12 رمضان2ہجری 8مارچ624ء<br /></span><span style="font-size:130%;">غزوۂ بنی سُلیم</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 24رمضان 2ہجری 20مارچ624ء<br />غزوۂ بنی قینقاع</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 15شوال2ہجری 10اپریل624ء<br />غزوۂ سویق</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> ذی الحج2ہجری<br />غزوۂ غطفان</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> محرم3ہجری<br />غزوۂ احد</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 14شوال3ہجری<br />غزوۂ حمراء الاسد</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 15شوال3ہجری<br />غزوۂ بنو نضیر</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> ربیع الاول4ہجری اگست625ء<br />غزوۂ بدرثانی</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> شعبان4ہجری<br />غزوۂ دومۃ الجندل</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 25ربیع الاول5ہجری<br />غزوۂ مریسیع</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 2شعبان5ہجری<br />غزوۂ خندق</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> ذیقعدۃ5ہجری مارچ627ء<br />غزوۂ بنو قریظہ</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 23ذیقعدۃ5ہجری مارچ627ء<br />غزوۂ بنو لحیان</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> ربیع الاول6ہجری<br />غزوۂ بنی قردیہ(غابہ)</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 6ہجری<br />غزوۂ خیبر</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> جمادی اول7ہجری<br />غزوۂ ذات الرقاع</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> جمادی اول7ہجری<br />غزوۂ موتہ</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> جمادی الاول8ہجری اگست629ء<br />فتحِ مکہ</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 10رمضان8ہجری 1جنوری630ء<br />غزوۂ حنین</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> 6شوال8ہجری<br />غزوۂ طائف</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> ذیقعدہ 8ہجری<br />غزوۂ تبوک</span><span style="font-size:130%;">:---</span><span style="font-size:130%;"> رجب9ہجری<br /><br /><br /><br /></span><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">غزواتِ رسولﷺ</span></span><span style="font-size:130%;"><br /><span style="font-size:100%;">حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں کم وبیش اٹھاسی مہمات بھیجی تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تھیں جن کی قیادت کسی صحابی کے سپرد تھی جو ’’سرایا‘‘ کہلاتی تھیں اور بعض کی قیادت خود سرورِ عالم ﷺ نے فرمائی اور یہ غزوات کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی تعداد 27ہیں، ان میں سے 9غزوات ایسے ہیں جن میں حضور ﷺ نے دشمنوں سے جنگ کی تھی یعنی بدر، احد، مریسیع، خندق، قریظہ ، خیبر، مکہ، حنین اور طائف اور باقی اٹھارہ میں شمشیر کا استعمال نہیں ہوا۔ (طبقات ابنِ سعد صفحہ 343)<br />ان تمام غزوات کی تفصیل ، فتح البلدان ، بلاذری، مغازی رسول، واقدی، تاریخ ابن خلدون، سیرت النبیؐ کے حوالہ سے ذیل میں درج کی جارہی ہے۔</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ ابواء:</span> <span style="font-size:100%;">صفر 2ھ میں حضور ﷺ ، ساٹھ سے دو سو مہاجرین کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ مقصد قریش کی شامی تجارت کو بند کرنا تھا۔ آپ مدینے سے نکل کر کوئی اسّی میل جنوب مغرب میں ابواء تک گئے۔ یہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو جُحفہ سے 13میل دورتھا۔اس مہم میں مشرکین کا تجارتی قافلہ نہ پہنچا اور پندرہ دن کے بعد لوٹ آئے۔ (سیرت النبی۔ شبلی نعمانی، تاریخ ابن خلدون)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ بُواط:</span> <span style="font-size:100%;">بُواط مدینہ سے کوئی پچاس میل دُور مغرب کی طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ینُبع سے ایک منزل مشرق میں یہ کبھی قبیلہ جہینہ جو مدینہ سے کوئی ڈیڑھ سو میل شمال مغرب میں آباد تھا کی ملکیت میں یہ خطّہ تھا۔ حضور.. ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک کارواں جس میں اڑھائی ہزار اونٹ ہیں، اور جس کی حفاظت اُمیّہ بن خلف اور سو دیگر آدمی کررہے ہیں، شام سے آرہاہے۔ چنانچہ آپ دو سو صحابہ کو لے کرنکلے۔ آپ بواط تک گئے لیکن قافلہ نہ مل سکا اور واپس آگئے۔ (ابن جوزی)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ تلاشِ کُرز:</span><span style="font-size:100%;"> مکّہ کا ایک مہم جُو کُرز بن جابر مدینہ کی چراگاہوں سے بہت سے مویشی ہانک کر بھاگ گیاتھا۔ حضور ﷺ اس کی تلاش میں سوادِ بدر کی ایک وادی سَفوان تک گئے تھے لیکن اُسے نہ پاسکے۔ یہ واقعہ ربیع الاوّل 2ھ میں پیش آیاتھا۔ (استیعاب۔ جلد1:صفحہ 223)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ ذی العُشیرہ:</span> <span style="font-size:100%;">ذوالعشیرہ مدینہ کے مغرب میں ساحل کی طرف ینُبع کے قریب ایک موضع جہاں حضور جمادی الآخر2ھ میں ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے گئے تھے۔ آپ کے ہمراہ ڈیڑھ سو صحابہ تھے۔ سواری اور باربرداری کے لیے تیس اونٹ بھی تھے۔ آپ ﷺ قافلے کو نہ پاسکے اور واپس آگئے۔</span><br /><span style="color: rgb(51, 102, 102); font-weight: bold;">غزوۂ بدر:</span> <span style="font-size:100%;">بدر دراصل ایک کنویں کا نام تھا جو اُس نواح کے ایک سردار بدر بن حارث یا بدر بن کَلدہ نے کُھدوایا تھا۔ لیکن بعد میں یہ ساری وادی بدر کے نام سے مشہور ہوگئی۔ یہ وادی مدینہ سے کوئی اَسّی میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ یہ وادی بیضوی شکل کی ہے، اندازاً پانچ میل لمبی اور چار میل چوڑی اس کے اردگرد کئی پہاڑیاں ہیں۔ سمندر وہاں سے 13یا12میل کے فاصلے پر ہے۔(ڈاکٹر حمید اﷲ :عہد نبویؐ کے میدانِ جنگ)<br />حضور ﷺ کو مخبروں نے اطلاع دی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ جس میں ایک ہزار اُونٹ اور تقریباً پانچ چھ لاکھ درہم کا سامان ہے۔ شام کی طرف سے آرہاہے۔ آپ۔ ﷺ اس قافلے کو روکنے کے لیے 12رمضان2ھ کو 313صحابہ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔اس غزوہ میں شہادت پانے والوں کی تعداد 14تھی۔ دوسری طرف قریش کا لشکر 950سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ اُن کے ساتھ سات سو اُونٹ اور ایک سوگھوڑے تھے۔ باایں ہمہ اُن کے ستّر آدمی ، جن میں ابوجہل ، ولید بن عقبہ اور حنظلہ بن ابوسفیان جیسے سردار شامل تھے، مارے گئے اور ستّر اسیر ہوئے۔ اُن میں حضور پاک . ﷺکے چچا عباسؓ اور خالد بن ولیدؓ کے بھائی ولید بن ولید شامل تھے۔ یہ تصادم 17رمضان 2ھ کو ہواتھا اور حضور 23یا22رمضان کو مدینہ واپس آئے تھے۔ (عہدِ نبوی کے میدانِ جنگ :صفحہ45-26، ابن خلدون ،جلد ا:صفحہ 88-82)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ بنی قینقاع:</span><span style="font-size:100%;"> مدینہ میں یہود کے تین قبیلے آباد تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر، اور بُنوقُریَظہ، یہ سب کے سب مدینہ کے حوالی میں رہتے تھے اور ان کا گزارہ تجارت، صنّاعی (زرگری وآہنگری) اور زراعت پر تھا۔ قینُقاع زرگری کا کام کرتے تھے اور اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ کے ذخائر بھی پاس رکھتے تھے گو حضور ﷺ نے مدینہ آتے ہی اوس، خزرج اور یہود سے ایک معاہدہ کرلیاتھاجسے انہوں نے توڑدیا۔ اب حضور ﷺ کے پاس جنگ کے سوا کوئی اور صورت باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ آپ ﷺ شوال2ھ کو صحابہؓ کے ایک دستہ لے کر قبیلۂ قینُقاع کی طرف بڑھے اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ پندرہ روز کے بعد یہود نے پیش کش کی کہ مسلمان اُن کے مال میں سے جو چاہیں لے لیں۔ لیکن اُنہیں بال بچوں سمیت مدینہ سے نکل جانے کی اجازت دے دیں۔ حضور ﷺ نے یہ پیش کش منظور فرمالی۔ اس کے بعد وہ لوگ مدینہ کو چھوڑ کر خیبر، فدک اور تیما وغیرہ کی طرف نکل گئے۔ (سیرت النبیؐ۔ جلد1:صفحہ408-395)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ سویق:</span><span style="font-size:100%;"> شکستِ بدر کے بعد ابو سفیان نے قسم کھالی تھی کہ وہ اس شکست کا انتقام لے گا چنانچہ مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام عُریض کہلاتاتھا وہاں ایک نخلستان میں دو صحابیؓ مصروفِکار تھے۔ ابوسفیان نے ان دونوں کو قتل کردیا اور پھر ڈر کے بھاگ نکلا اور اُونٹوں کو سُبک سیر بنانے کے لیے سویق (ستّو) کے تھیلے راہ میں پھینکتاگیا۔ اسی مناسبت سے یہ مہم غزوۂ سویق کے نام سے مشہور ہوگئی۔<br />جب حضور ﷺ تک یہ اطلاع پہنچی تو آپ 5ذی الحجہ کو اسّی80 صحابہ کے ہمراہ ابو سفیانؓ کی تلاش میں نکلے۔ دور تک اُس کا تعاقب کیا۔ لیکن وہ نہ ملا اور آپ. ﷺ پانچ دن کے بعد واپس آگئے۔(ابنِ خلدون۔ جلد1:صفحہ96اور سیرت النبی ؐ۔ شبلی۔ جلد1: صفحہ365)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ قَرقَرۃُ الکُدر:</span><span style="font-size:100%;"> حضور. ﷺ کو اطلا ع ملی کہ عرب کے دو اہم قبیلے سُلیم اور غطفان ارحضیہ کے قریب ایک موضع قرقرۃ الکدر میں، جو مدینہ سے کوئی اسّی میل دور تھا، جمع ہورہے ہیں۔ آپ نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور دو سو صحابہ کے ہمراہ محرم 3ھ کو مدینے سے روانہ ہوئے۔ آپ تین چار روز کے بعد منزل پر جاپہنچے۔ لیکن وہاں دشمن کا نشان تک نہ تھا۔ وہا ں صرف اُن کے اونٹ تھے جو صحرا میں چر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہؓ فرمایا کہ یہی اُونٹ اُن کی سواریاں ہیں جن پر چڑھ کر وہ مدینے پر حملہ کرسکتے ہیں، اس لیے انہیں ہانک کر لے چلو۔ چنانچہ وہ اُنہیں ہانک لائے۔(تلقیح۔ ابن جوزی)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ غَطَفان:</span><span style="font-size:100%;"> غزوۂ کُدر سے کوئی دو ماہ بعد حضور ﷺ کو اطلا ع ملی کہ نجد کے دو قبیلے ثعلبہ اور محارب، جو غطفان کی شاخیں تھیں، ذوامر(بنو غطفان کاایک موضع میں جمع ہورہی ہیں۔ بنو محارب کے رئیس دُعثور بن حارث اس اجتماع کے قائد ومحرک ہیں چنانچہ آپ ﷺ 12ربیع الاول 3ھ کو 450صحابہ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے ۔ جب ان قبائل کو آپ ﷺ کی آمد کا علم ہوا تو پہاڑوں میں بھاگ گئے۔اس سفر کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ ﷺ وہاں دن کے وقت ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے کہ دبے پاؤں دُعثور وہاں جا پہنچا۔ تلوار سونت کر حضور ﷺ کے سر پر کھڑا ہوگیااور بلند آواز سے کہنے لگا: بتااے محمد ﷺ! تجھے اب مجھ سے کون بچائے گا؟۔ حضور ﷺ نے بے ساختہ جواب دیا’’اﷲ‘‘ دُعثور کے ہاتھ سے تلوار گر گئی جسے حضور ﷺ نے فوراً تھام کر پوچھا’’بتا اب تجھے کون بچائے گا؟ کہنے لگا’’کوئی نہیں‘‘..... اور ساتھ ہی کلمہ پڑھ کر اسلام لے آیا۔ حضور ﷺ وہاں کچھ دیر ٹھہرے اور پھر کسی تصادم کے بغیر واپس چلے گئے۔ (تلقیح۔ ابن جوزی)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوہ بنو سُلیم:</span> <span style="font-size:100%;">مدینہ سے کوئی 60/50میل جنوب مشرق میں ایک مقام فُرع کہلاتاتھا اور اُس کے قریب ہی ایک اور موضع بُحران کے نام سے مشہور تھا، حضور ﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو سُلیم بحران میں جمع ہورہے ہیں ۔ 9جمادی الاولیٰ 3ھ کو تین سو صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ منزل پر پہنچے تو وہاں کسی لشکر کا نشان نہ تھا۔</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ اُحد:</span><span style="font-size:100%;"> بدر کے مقتولوں کا انتقام لینے کے لیے قریش سخت بے تاب تھے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے تین ہزار جانبازوں کا ایک لشکر تیار کیا جس میں سات سو زرہ پوش تھے اور جن کے پاس دو سو گھوڑے اور تین ہزار اُونٹ تھے۔ یہ لشکر 5شوال3ھ اُحد کے قریب فروکش ہوا۔ حضور ﷺ کو لمحہ لمحہ کی خبر مل رہی تھی۔ آپ ﷺ دو دن بعد ایک ہزار افراد کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ جب جنگ شروع ہوگئی تو مسلمانوں کے تُندوتیز حملوں سے قریش کے پاؤں اُکھڑ گئے اور مسلمانوں نے قریش کا سامان سمیٹنا شروع کیا۔ یہ صورت دیکھ کر قُلّہ کوہ کے تیر انداز بھی نیچے کو بھاگے۔ عبداﷲؓ بن جبیر نے بہت روکا۔ لیکن انہوں نے پرواہ نہ کی۔ اس پر خالد بن ولیدؓ نے پیچھے سے حملہ کیا۔ حملہ اتنا تیز تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ ایک خاصی تعداد شہید ہوگئے۔ حضور ﷺ کے چہرے پر چوٹ آئی۔ دائیں طرف کا ایک نچلا دانت ٹوٹ گیا اور آپ ﷺ ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اس پر یہ افواہ پھیل گئی کہ حضور ﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ اس سے عام بدحواسی چھاگئی ۔ بعد ازاں حضور ﷺ کی حیات کی خبر سن کر جاں نثار کفار پر ٹوٹ پڑے۔<br />اس جنگ میں شہداء کی تعداد 70 تھی۔ ان میں حضرت حمزہؓ ، حضرت عبداﷲ بن حجشؓ، حضرت معصب بن عمیرؓ و دیگر مہاجر صحابہ اور انصار شامل تھے۔ جب کہ مقتولینِ قریش کی تعداد بقولِ ابن خلدون (جلد1۔ صفحہ104) بائیس تھی اور بقول ابن الجوزی (تلقیح: صفحہ25) تئیس تھی۔</span><br /><span style="color: rgb(51, 102, 102); font-weight: bold;">غزوۂ بنو نضیر:</span><span style="font-size:100%;"> بنو نضیر یہودِ مدینہ کا ایک قبیلہ تھاجو مسجدِ نبوی ﷺ سے جنوبِ مشرق کی طرف شہر سے باہر آباد تھا۔ یہ ہر وقت اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتاتھا۔ آپ ﷺ ربیع الاول 4ھ میں صحابہ کا ایک لشکر لے کر بنو نضیر کے محلّے میں گئے ۔ ان کا محاصرہ کرلیا اور پندرہ دن کے بعد اس شرط پر صلح ہوئی کہ یہود ہتھیار چھوڑ جائیں اور جتنا سامان اُٹھاسکتے ہیں لے کر مدینہ سے نکل جائیں۔ چنانچہ یہ لوگ خیبر وغیرہ کی طرف چلے گئے ۔ (سیرت النبی ؐ۔ شبلی ۔ جلد1:صفحہ408، عہدِ نبویؐ کے میدانِ جنگ: صفحہ 9، ابنِ خلدون۔جلد1:صفحہ117)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ بدر الموعد:</span><span style="font-size:100%;">جنگِ اُحد کے خاتمے پر ابوسفیان نے بلند آواز سے کہاتھا کہ اگلے سال ہماراتمہارا مقابلہ میدانِ بدر میں ہوگا۔ چونکہ حضور نے اس چیلنج کو منظور کرلیا تھا اس لیے آپ 4ھ کو پندرہ سو صحابہ اور دس گھوڑوں کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابوسفیان بھی دو ہزار ہمراہیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا لیکن اُسے حملے کی ہمت نہ پڑی اور واپس چلاگیا۔ (ابنِ خلدون ۔ جلد اول:صفحہ118)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوہ ذاتُ الرقاع:</span><span style="font-size:100%;"> حضور کو اطلاع ملی کہ نجد میں غطفان کے دوقبیلے ثعلبہ اور اَنمار مدینے پر حملے کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ آپ نے چار سو (یا سات سو) صحابہ کے ساتھ محرم 5ھ میں کوچ کیا اور ایک ایسے میدان میں خیمے ڈالے جس کے چاروں طرف سرخ ، سفید اور سیاہ رنگ کی پہاڑیاں تھیں اور یوں نظر آتاتھا گویا رنگ برنگ کپڑے دھوپ میں لٹکے ہوئے ہیں۔ قبائل منتشر ہوگئے اور حضورلڑے بغیر واپس آگئے۔ ذات الرقاع کے لفظی معنی ہیں ’’دھجیوں اور ٹکڑوں والی‘‘ اس سے مراد غطفان کا وہ میدان ہے‘‘۔ (تلقیح از ابنِ جوزی)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ دومۃ الجَندل:</span><span style="font-size:100%;"> دومۃ الجندل کا قصبہ مدینہ سے پانچ سو میل شمال میں اس تجارتی شاہراہ کے قریب واقع تھا جو یمن سے شام تک جاتی تھی۔ چونکہ وہاں کے قبائل مدینہ کے تجارتی قافلوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔ اس لیے حضورپاک ﷺ اُن کی گوشمالی کے لیے ربیعِالاول 5ھ کو ایک ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور پندرہ دن کے بعد دومہ پہنچے۔ لیکن قبائل منتشر ہوچکے تھے اس لیے واپس آگئے۔ (تلقیح از ابنِ جوزی)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ مُریسیع (یا بنی مصطلِق):</span> <span style="font-size:100%;">مریسیع ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ سے اندازاً سو میل جنوب مغرب میں ساحل کی طرف واقع تھا اس کے نواح میں بنو خزاعہ کی ایک شاخ بنو مصطلق آباد تھی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ یہ قبیلہ مدینہ پر حملے کا ارادہ رکھتاہے۔ آپ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دے دیا اور 5ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو وہ لوگ جنگ کے لیے تیار تھے اُن میں سے دس مارے گئے۔ چھ سو اسیر ہوئے اور غنیمت میں دو ہزار اُونٹ اور پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں۔ اس تصادم میں صرف ایک صحابی شہید ہوئے۔ (شبلی۔ جلد1: صفحہ413، ابنِ خلدون۔جلد1، صفحہ128)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ احزاب (خندق):<span style="font-size:100%;"> </span></span><span style="font-size:100%;">بنو نضیر مدینہ سے نکل کرخیبر میں پہنچے تو انہوں نے انتقام کی ٹھان لی۔ ان کے رؤسا میں سے حُیی بن اخطب اور کنانہ بن ربیع قریش کو ساتھ ملانے کے لیے مکہ میں گئے ۔ وہ پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ اس لیے جھٹ مان گئے ۔ پھر غطفان، بنو اسد، بنو سُلیم، بنو سعد اور چند دیگر قبائل کو ساتھ ملایا اور اس طرح دس ہزار کا لشکر لے کر مدینے کی طر ف بڑھے۔<br />حضور تک یہ خبریں پہنچیں تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے رائے دی کہ فوج کے لیے ایک موزوں جگہ تجویز کرکے اس کے سامنے خندق کھود دی جائے۔ حضور کو یہ تجویز پسند آئی۔ یہ کھدائی تین ہفتے جاری رہی ، حضور اُن دنوں اپنا گھر چھوڑ کر خندق کے پاس ایک ٹیلے پر خیمہ لگاکر قیام پذیر ہوگئے تھے۔ آپ ﷺ شہر کے باقی لوگوں کے ساتھ خندقیں کھودنے لگے اور اس طرح سارا شہر ایک قلعہ بن گیا۔ جب یہ خندق مکمل ہوگئی تو دشمن بھی آن پہنچا اور اس نے محاصرہ کرلیا۔ محاصرے نے شدّت پکڑی تو مدینہ کے بنوقریظہ بھی دشمن کے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریش نے ہر چند زور مارا کہ وہ خندق کو عبور کرکے آگے نکلیں لیکن تیر اندازوں نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا۔ جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قریش کے ذخائرِ رسد ختم ہوگئے، ساتھ ہی ایک ایسی آندھی چل پڑی جس سے درخت اُکھڑ گئے اور قریش کا مال واسباب اُڑگیا تو وہ گھبراگئے اور اکیس دن کے بعد واپس چلے گئے۔ آپ خندق میں پندرہ یوم رہے ۔ آپ کے ساتھ تین ہزار صحابہ تھے اور حملہ آوروں کی تعداد دس ہزار تھی۔ (شبلی ۔ جلد 1:صفحہ 419، ابنِ خلدون۔ جلد 1:صفحہ 120، عہدِ نبویؐ کے میدانِ جنگ:صفحہ 60)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ بنو قرُیظہ:</span><span style="font-size:100%;"> بنو قریظہ یہود کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں مسجدِ نبوی ؐ سے جنوبِ مشرق کی طرف آباد تھا۔ عزوۂاحزاب میں یہ لوگ معاہدے کو توڑ کر قریشِ مکہ کے ساتھ مل گئے تھے اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے میدانِجنگ میں اُتر آئے تھے۔ جب احزاب واپس چلے گئے تو حضور نے صحابہ سے کہا کہ وہ ہتھیار نہ کھولیں اور سب سے پہلے بنو قریظہ کے فتنے کو ختم کریں۔ چنانچہ 5ھ کو آپ تین ہزار صحابہ اور36گھوڑوں کے ساتھ اُن کے محلے میں گئے اور اُن کا محاصرہ کرلیا۔ پندرہ دن کے بعدوہ چیخ اُٹھے اور حضرت سعدؓ بن معاذ کی ثالثی پر بات چیت کے لیے آمادہ ہوگئے۔</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ بنو لحیان:</span><span style="font-size:100%;">بنو لحیان قبیلہ ہُذیل کی ایک شاخ تھی ، جو مدینہ کے جنوبِ مشرق میں آباد تھی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ بنو لحیان کسی شرارت کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ چنانچہ آپ دو سو صحابہ اور بیس گھوڑوں کے ساتھ ربیعِالاول6ھ کو مدینہ سے نکلے۔ وہاں پہنچے تو وہ سب پہاڑوں کی طرف بھاگ چکے تھے۔ اس لیے آپ14 دن کے بعد واپس تشریف لے آئے۔</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ غابہ :</span><span style="font-size:100%;"> غابہ کے معنی جنگل کے ہیں۔ مدینہ منورہ سے چار میل کے فاصلے پر احد پہاڑ کی پشت پر ہے۔ یہاں وہ میدان مراد ہے جہاں رسول اﷲکے اونٹ چراکرتے تھے۔ (کتاب فرہنگ سیرت: صفحہ217)<br />ایک رات بنو غطفان کی ایک شاخ فزارہ کے سردار عُیینہ بن حِصن نے چالیس سواروں کے ساتھ غابہ پر حملہ کیا اور بیس اونٹنیاں ہانک کر لے گیا۔ ساتھ ہی حضرت ابو ذر غفاریؓ کے فرزند کو، جو اُسی چراگاہ میں رہتاتھا قتل کر ڈالا۔ حضور کو اطلاع ملی تو پانچ سو (یا سات سو) کی جمعیت لے کر اُن کا پیچھا کیا۔ آپ کے ساتھ آٹھ گھڑ سوار بھی تھے۔ انہوں نے چوروں کو جالیا۔ لڑائی ہوئی، چار چور مارئے گئے اور مسلمانوں میں صرف ایک شہید ہوئے۔ انہوں نے دس اونٹنیاں تو پکڑلیں لیکن باقی دس کو وہ بھگالے گئے۔</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوہ حدیبیہ:</span><span style="font-size:100%;"> حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے جو مکہ سے بارہ میل شمال میں واقع تھا ۔ جب حضور ذی قعدہ 6ھ میں تقریباً پندرہ سو صحابہ کے ہمراہ عُمرہ کے لیے روانہ ہوئے اور قریش تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے خالد بن ولید کو دوسو سوار دے کر آگے بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو روکے۔ بلدح (مکہ کے قریب ایک وادی) میں فوجیں آمنے سامنے آگئیں ۔ لیکن حضور ﷺ حدیبیہ کی طرف نکل گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں سے آپ نے حضرت خراشؓ بن امیہ کو قریش کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم لڑنے کے لیے نہیں بلکہ صرف عُمرہ کے لیے آئے ہیں۔ قریش نے انہیں گرفتار کرلیا۔ پھر آپ نے حضرت عثمانؓ کو بھیجا۔ وہ بھی دیر تک نہ لوٹے تو آپ نے صحابہ سے ایک ببول کے درخت کے نیچے سرفروشی کی بیعت لی۔ یہ خبرقریش تک پہنچی تو انہوں نے سہیلؓ بن عمرو کو بات چیت کے لیے بھیجا۔ کافی بحث وتمحیص کے بعد معاہدہ حدیبیہ طے پایا ۔ اس معاہدہ کے بعد مکہ ومدینہ کے لوگ آپس میں آزادانہ ملنے لگے اور اہلِ مکّہ ، اہلِ مدینہ کے حسنِ کردار ، حسنِ معاملہ اور حسنِ صحبت سے متاثر ہونے لگے۔ اس سے اسلام کے خلاف نہ صرف عناد کم ہوگیا بلکہ بے شمار دلوں میں دینِ فطرت کے لیے محبت بھی پید اہوگئی۔ (طبقات۔ جلد1:صفحہ438، تلقیح:صفحہ30، شبلی۔ جلد 1 :صفحہ447)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ خیبر:</span><span style="font-size:100%;"> خیبر یہود کا ایک قلعہ بند شہر تھا مدینہ سے اندازاً سو میل شمال میں ۔ بنو نضیر، قُریظہ اور قینقاع کے بیشتر جلاوطن یہود وہیں جا ٹھہرے تھے اور ارد گرد کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف مسلسل بھڑکاتے رہتے تھے۔ جب ان کی شرارتیں ناقابلِ برداشت ہوگئیں تو حضور، 7ھ میں سولہ سو صحابہؓ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے، تیر اُٹھانے اور دیگر چھوٹے بڑے کاموں کے لیے کچھ خواتین بھی ساتھ ہولیں۔<br />خیبر میں کئی قلعے تھے۔ مثلاً سلالم، قموص، نطاۃ، ناعم، زُبیر، قُصارہ ، الوطیع ، شق اور مربطہ۔ جن کی حفاظت پر بیس ہزار سپاہی متعین تھے۔ ان میں قموص مضبوط ترین تھا۔ اس کا رئیس مرحب بن عنتر تھا۔ سب سے پہلے ناعم فتح ہوا۔ پھر کئی دیگر قلعے ۔ لیکن قموص فتح نہ ہوسکا۔ حضور نے یکے بعد دیگرے کئی صحابہؓ کو اس مہم پر بھیجا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس پر حضور نے فرمایا: میں کل ایک ایسے شخص کو عَلم دوں گا جو ناکام نہیں آئے گا۔ دوسرے روز حضرت علیؓ کو عَلم عطا کیا۔ حضرت علیؓ نے قلعہ پر حملہ کیا ، مرحب مرگیا۔ اس کی فوج بھاگ نکلی اور پورے بیس دن کے بعد قموص فتح ہوگیا۔ ساتھ ہی اہلِ خیبر نے ہتھیار پھینک دیے حضور نے سالانہ نصف زرعی پیداوار کا لگان عائد کرکے انہیں کامل امن وامان دے دیا۔ (ابنِ خلدون ۔جلد 1:صفحہ 149، طبقات۔جلد 1:صفحہ447، شبلی ۔ جلد 1:صفحہ475)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">فتحِ مکہ:</span><span style="font-size:100%;"> بنو خزاعہ مکہ ومدینہ کے درمیان بدر کے قریب آباد تھے او رمسلمانوں کے حلیف تھے۔ معاہدہ حدیبیہ کے مطابق قبائل عرب کو پوری پوری آزادی تھی کہ جس کے ساتھ چاہیں، معاہدہ کریں۔ فریقین اس کا احترام کریں گے۔ لیکن قریش نے اس شرط کو توڑ دیا اور نجد کے ایک قبیلے بنوبکر کے ساتھ مل کر حضور کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔ حضور ﷺ نے قریش کوپیغام بھیجا کہ مقتولوں کا خون بہا اداکرو لیکن قریش نے انکار کردیا۔ اس پر حضور اکرم ﷺ 10رمضان 8ھ کو دس ہزار صحابہ کے ہمرہ مدینہ سے نکلے۔ جب مکہ کے قریب مرُّا الظہران میں پڑاؤ ڈالا تو ابو سفیان رات کے وقت چند دیگر آدمیوں کے ساتھ جائزہ لینے کے لیے مرّاالظہران میں گیا۔ کسی صحابی نے اسے دیکھ لیا اور پکڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں لے گیا۔ وہاں پہنچ کر ابوسفیان نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ مکہ 20رمضان 8ھ کو فتح ہواتھا۔ بعد از فتح حضور پاک ﷺ پندرہ دن اور وہاں رہے۔ پھر حضرت عتّاب بن اُسید کو عاملِ مکہ بناکر واپس تشریف لے گئے۔ (طبقات۔ جلد 1:صفحہ474، شبلی۔ جلد 1: صفحہ509)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ حنین:</span><span style="font-size:100%;"> حنین ایک وادی کا نام ہے جو مکہ سے تین دن کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔ اس کے نواح میں ثقیف و ہوازن آباد تھے۔ جب حضور 6شوال 8ھ کو بارہ ہزار مجاہدین کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوئے تو10شوال کو وادئحنین میں پہنچے وہاں ثقیف و ہوازن ہزاروں کی تعداد میں پہلے ہی سے مقیم تھے۔ جب 11شوال کی صبح کا سورج نکلا اور صحابہ کی صفیں دشمن کی طرف بڑھیں تو سامنے سے ہزاروں جوان ٹو ٹ پڑے۔ تیروں کا مینہ برسنے لگا اور یہ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ صحابہِ ادھرُ ادھربھاگ نکلے اور حضور کے پاس صرف سات صحابہ رہ گئے پھر وہ سب لوٹ کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اس شجاعت و بے جگری سے لڑے کہ دشمن گھبراکر بھاگ نکلا اور ستّر لاشیں میدان میں چھوڑ گیا۔ صحابہ میں سے صرف چار نے شہادت پائی۔ اسیروں کی تعداد 6ہزار تک جاپہنچی۔ قبائل کا ایک وفد قیدیوں کی رہائی کے لیے آیا اور رحمتہ للعالمین نے سب کو آزاد کردیا۔ (طبقات۔ جلد 1:صفحہ488، شبلی ۔ جلد 1:صفحہ530)</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوہ طائف :</span><span style="font-size:100%;"> طائف مکہ کے مشرق میں چالیس میل دور ایک سر سبز وشاداب مقام ہے جہاں وادئ حنین کے مغرور جمع ہوگئے تھے۔ حضور نے حُنین سے فارغ ہوکر شوّال ہی میں طائف کا محاصرہ کرلیا۔ لوگ قلعہ بند ہوکر چھتوں پر سے تیر برسانے لگے جن سے بارہ صحابہ شہید ہوگئے۔ محاصرہ اٹھارہ دن جاری رہا چونکہ طویل سفر اور دومہمّات (مکہ وحنین) کی وجہ سے صحابہ اُکتاگئے تھے۔ اس حضور ﷺ نے محاصرہ اُٹھالیا اور واپس چل دئیے۔ دو ماہ اور سولہ دن کے بعد حضور مدینہ میں تشریف لائے۔</span><br /><span style="font-weight: bold; color: rgb(51, 102, 102);">غزوۂ تبوک :</span><span style="font-size:100%;">تبوک شمالی عرب کا ایک شہر ہے۔ مدینہ سے ساڑھے تین سو میل دور اور خلیج عقبہ سے ایک سو میل مشرق میں ۔ جب شامی تاجروں نے مدینے میں آکر یہ بتایا کہ رومی فوجیں عرب کی شمالی سرحد پر جمع ہورہی ہیں تو حضور ﷺ نے جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ ماہ رجب 9ھ میں تیس ہزار مجاہدین اور دس ہزار گھوڑوں کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے ۔ تیرہ چودہ دن کے بعد تبوک میں پہنچے وہاں بیس دن رہے لیکن رومی فوج سامنے نہ آئی اس لیے آپ واپس چل پڑے اس موقع پر آپ کا گزر قومِ ثمود کی تباہ شدہ بستیوں سے بھی ہوا۔(طبقات ابن سعد۔ جلد 1: صفحہ</span>506<br /></span></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-8655930415110022162009-10-23T13:44:00.000-07:002010-06-15T08:57:51.407-07:00Coins<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">عہدِ نبوی ﷺ کے سکّہ</span><br /></span><span style="font-size:130%;">عہد نبویﷺ میں رائج دینار اور درہم کیسے تھے؟-ان کی ماہیت، ان کا وزن، ان کی ویلیو کیا تھی؟-<br />اس حوالے سے کچھ معلومات پیشِ خدمت ہی<br /></span><span style="font-size:130%;">سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادتِ باسعادت کے وقت بازنطینی بادشاہ قیصر روم جسٹن دوم کی حکومت تھی۔ جسٹن دوم کی حکومت میں جاری دینار سونے، چاندی اور کانسی کے تھے۔ سونے کا دینار سولڈیوس کہلاتا تھا، جس کا وزن 4.156 گرام اور قطر 2 سینٹی میٹر تھا۔ اس سکے کے سیدھے رُخ پر جسٹن دوم کی تصویر نقش ہے، جو تاج پہنے ہوئے ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک شیلڈ ہے جسے دنیا کی فتح کا نشان بتایا جاتا ہے.....<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjmM5sG58xuyBt6r2thu0XWstEi4TOBAUeWTSjrH_3HKrtgK4uZOcelR_qd6Po2qfSPLLu-z40GUu-MVW-Lkw5isPDrxgVU5c8FKU5mvB9jcFpZQoE4ZvgM5Y0IhkH8AzcDlsbAwly8Yls/s1600-h/justin-ii-solidus.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 142px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjmM5sG58xuyBt6r2thu0XWstEi4TOBAUeWTSjrH_3HKrtgK4uZOcelR_qd6Po2qfSPLLu-z40GUu-MVW-Lkw5isPDrxgVU5c8FKU5mvB9jcFpZQoE4ZvgM5Y0IhkH8AzcDlsbAwly8Yls/s400/justin-ii-solidus.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395903284614848610" border="0" /></a><br />سکے کے اُلٹے رُخ پر جسٹن دوم تاج پہنے ہوئے ہے اور اُس کے ایک ہاتھ میں شاہی عصا اور دوسرے ہاتھ میں صلیب ہے۔<br />جسٹن دوم کا چاندی کا دینار سلیقوا کہلاتا تھا، اِس کا وزن 5 گرام اور قطر 12.4 ملی میٹر تھا۔ سیدھے رُخ پر جسٹن دوم تاج پہنے ہوئے ہے اور اُلٹے رُخ پر ایکس کا نشان بنا ہے اور رومن ہندسہ سی یعنی 100 لکھا ہے،<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhNyJuEu1Sgrp-QWI2wmIABziVgPbIeFJbjE_qGLBFwv2RGnfILwsDXxWITQhPRPQsJ-mpVREhFnmMwY6znHu9EKT16_dQXcDwgi9xRN7lb9KDVB_5o9FzsE0nZ1qb3h3m7kcLmKm0k3Es/s1600-h/justin-ii-siliqua.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 144px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhNyJuEu1Sgrp-QWI2wmIABziVgPbIeFJbjE_qGLBFwv2RGnfILwsDXxWITQhPRPQsJ-mpVREhFnmMwY6znHu9EKT16_dQXcDwgi9xRN7lb9KDVB_5o9FzsE0nZ1qb3h3m7kcLmKm0k3Es/s400/justin-ii-siliqua.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395903286652101506" border="0" /></a><br />یعنی یہ سکہّ100 نُمی کی مالیت کا ہے۔<br />جسٹن دوم کے عہد کے کانسی کے سکّے جسے فولس کہا جاتا تھا۔ اِن کا وزن 13.88 گرام ہے اور اس کا قطر 26.2 ملی میٹر ہے۔ سامنے رُخ پر جسٹن دوم اور ملکہ صوفیہ کی تصویر نقش ہے اور دوسرے رُخ پر بڑے حرفوں میں کے لکھا ہے جو آدھے فولس کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض سکوں میں ایم لکھا ہے جو ایک فولس فولس کو ظاہر کرتا ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8PQ4PD5pzI2u4cKsYapSVAU50yp773NuKUjnfL0jwaxnHlkVfcR-CQb41ypUFgqszwP4n7kNedIYq29irlLUUlfszMueJLZdqdodOqvlozJbzD0ASpoiyVj8KCPXHy1MQBMyOrxrC3R8/s1600-h/justin-ii-follis.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8PQ4PD5pzI2u4cKsYapSVAU50yp773NuKUjnfL0jwaxnHlkVfcR-CQb41ypUFgqszwP4n7kNedIYq29irlLUUlfszMueJLZdqdodOqvlozJbzD0ASpoiyVj8KCPXHy1MQBMyOrxrC3R8/s400/justin-ii-follis.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395903295570831842" border="0" /></a><br />ساتھ ہی رومی ہندسہ 8 ہے جو حکومت کے آٹھویں سال کی نشاندہی کرتا ہے۔جسٹن دوم کے یہ دینار 578ء یعنی حضور نبی کریمﷺکے دادا حضرت عبد المطلبؓ کے انتقال کے بعد اور چچا ابو طالب کی کفالت میں آنے تک جاری رہے۔<br /><br /><br />اسی عہد کے دوران فارس میں کسریٰ اوّل یعنی ’’خسرو اوّل‘‘ کی حکومت تھی۔ اس کے عہد میں رائج سکوں کو فارسی میں دریک کہا جاتا تھا جو بگڑ کر دریکم اور دِرَخم بن گیا اور عربوں نے اُسے درہم کے نام سے پکارا۔ درہم سونے، چاندی، کانسی اور تانبے کے بھی ہوتے تھے..... چاندی کے درہموں کو فارس میں کرشہ کہتے تھے۔ (ایرانِ قدیم۔ حسن پیرینا، تاریخِ تمدن ایران ساسانی۔ سعید نفسی، مطبع تہران)<br />خسرو اوّل کے دور میں سونے کے درہم جو 570ء میں رائج تھے، ان کا وزن 4.05 گرام اور قطر 3.1 ملی میٹر تھا۔ اس کے سامنے کے رُخ پر خسرو اوّل کی تصویر نقش ہے جس میں وہ تاج پہنے ہوئے ہے اور الفاظ خسروی افضوی تحریر تھے۔ جس کے معنی ’’خسرو مبارک ہے‘‘<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiiaAVoB8pryT8NstF5uK8qXfMCJbeIFggxJPRFxM5oFxVpEmibZn1YGxIYVCHVgCzdAniLgHFgOc8_jpcLUpy7p8cj6ZuD61lUTQkpry13iPOLMYFOV5ePsCIDKkkpdcH9mTqJzDS2Bm4/s1600-h/khusro-i.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiiaAVoB8pryT8NstF5uK8qXfMCJbeIFggxJPRFxM5oFxVpEmibZn1YGxIYVCHVgCzdAniLgHFgOc8_jpcLUpy7p8cj6ZuD61lUTQkpry13iPOLMYFOV5ePsCIDKkkpdcH9mTqJzDS2Bm4/s400/khusro-i.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395908909448619474" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اور دوسرے رُخ پر آتشکدے کی تصویر ہے جس کے آس پاس دو نگراں کھڑے ہیں اور ساتھ ہی "39" (سکے کے اجراء کا سن) درج ہے، جس سے خسرو کی حکومت کا 39 واں سال مراد ہے<br />خسرو اوّل کے درہم مختلف سن میں مختلف وزن وقطر کے تھے۔ 570ء میں 4.05 گرام، 571ء میں 3.98 گرام، 574 ء میں 4.02 گرام، 575ء میں 4.01 گرام، 576ء میں 3.86 گرام، 577ء میں 4.07 گرام یعنی یہ سب تقریباً 4 گرام کے تھے اور ان سب کا قطر 3.1 ملی میٹر تھا۔<br />خسرو اوّل کے دوسرے درہم جو طبری کہلاتے تھے، ان میں 570ء میں 2.34 گرام، 575ء میں 2.46 گرام، 577ء میں 2.79 گرام..... بعض سکے 2.10 سے 2.15 گرام کے درمیان بھی تھے۔ ان تمام سکوں پر خسرو اوّل اور آتشکدے کی تصاویر نقش تھیں.....<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj7u475nAQ7OnTSaBT8HAsdOxIkN7HrYIX3_8oqLHyT2smN_nin63Uj03XDTeHfBoLGD4gbgcw9m6tRDsF1iGjleCEsUfEztD9dliTUgN8e4OFVEFb3P-_n07BsV3t3VV6rYQRdEEYI6_c/s1600-h/khusro-i-1.gif"><img style="cursor: pointer; width: 131px; height: 129px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj7u475nAQ7OnTSaBT8HAsdOxIkN7HrYIX3_8oqLHyT2smN_nin63Uj03XDTeHfBoLGD4gbgcw9m6tRDsF1iGjleCEsUfEztD9dliTUgN8e4OFVEFb3P-_n07BsV3t3VV6rYQRdEEYI6_c/s400/khusro-i-1.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395908912495386034" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">خسرو اوّل کے بعد ہرمزد چہارم تخت نشین ہوا اور 590ء تک حکمران رہا..... تعمیرِکعبہ، جنگِ فجار، حلف الفضول کے واقعات اسی دوران رونما ہوئے۔ اس عہد میں حضور نبی کریمﷺ نے گلہ بانی کی اور اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارت کے لئے شام تشریف لے گئے تھے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjdpDH7NAbmpr8-AoOUO_KctW1S10xZPnFfxOFyrVsXxkrjFg6kTGYBQ0TE7BXgAvBABqrD-sjTg5JBuuQ14hZB0jRiY_3VTiNipX5z5rABFEdxcXPgZGQvpziLSVp34jAEvDlUdJtHx_E/s1600-h/hormazd-iv.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjdpDH7NAbmpr8-AoOUO_KctW1S10xZPnFfxOFyrVsXxkrjFg6kTGYBQ0TE7BXgAvBABqrD-sjTg5JBuuQ14hZB0jRiY_3VTiNipX5z5rABFEdxcXPgZGQvpziLSVp34jAEvDlUdJtHx_E/s400/hormazd-iv.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395908918035305346" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ہرمزد چہارم کے درہم کا وزن 3.45 گرام اور قطر 3 ملی میٹر تھا۔ اس کے ایک رُخ پر ہرمزد چہارم کی تصویر اور دوسرے رُخ پر آتشکدے کا نقش تھا۔ ہرمزد کے بعض سکوں کا وزن 3.45 گرام سے 4.15 گرام تک ہوتا تھا اور طبری سکوں کا وزن 2.50 گرام سے 3 گرام تک تھا.....<br /><br />روم میں جسٹن دوم کے بعد قیصر تبریس قسطنطین دوم کی تخت نشینی ہوئی-<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhnffzX5dLQSshIvMP9Z4TpLZytylh86wTOZRUGXYE_mSLuQZainyg5euHGKbfhdQWxR3-Sjk6OmM1FmJ_cBmbfYEilWBUSmtFexX64kqNY66EMMt0Gwmz5yGSeP0zyEkvPavywt2P4Zf8/s1600-h/tiberius-ii.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhnffzX5dLQSshIvMP9Z4TpLZytylh86wTOZRUGXYE_mSLuQZainyg5euHGKbfhdQWxR3-Sjk6OmM1FmJ_cBmbfYEilWBUSmtFexX64kqNY66EMMt0Gwmz5yGSeP0zyEkvPavywt2P4Zf8/s400/tiberius-ii.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395911519519671362" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قیصر تبریس قسطنطین دوم </span><span style="font-size:130%;"> کے جاری کردہ فولس (کانسی کے دینار) کا وزن 12.07 گرام اور قطر 3 سینٹی میٹر تھا۔ اس کے سامنے رُخ پر قیصر تاج پہنے ہوئے ہے اور اس کے ہاتھ میں شاہی عصا ہے جس پر عقاب کی شبیہ بنی ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiNIKsgZ7i-6TnhmT-KO_T_3o-8KIxWFiiGuE6X8yWPEgPSfXHe4PYy2NirwusOHhHxANrt9xmtB0y2GhqmtI0kqVfWMDGd4BrA5SQ8mPrPB4yUJOBRXMm-rxk0Mm2bcc9CjZfPCONDYxM/s1600-h/tiberius-ii-2.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 129px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiNIKsgZ7i-6TnhmT-KO_T_3o-8KIxWFiiGuE6X8yWPEgPSfXHe4PYy2NirwusOHhHxANrt9xmtB0y2GhqmtI0kqVfWMDGd4BrA5SQ8mPrPB4yUJOBRXMm-rxk0Mm2bcc9CjZfPCONDYxM/s400/tiberius-ii-2.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395911526255917458" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">یہ دینار 578ء سے 582ء تک جاری رہے۔ یہ وہ دور تھا جب رسول کریمﷺ مکہ کے نواح میں گلہ بانی کا کام سرانجام دیتے تھے۔<br />ماؤریس تبریس تخت نشین ہونے والا نیا قیصر روم تھا جو 582 سے 602 ء تک یعنی بیس سال حکمران رہا۔ اس کے عہد حکمرانی کے دوران حضور نبی کریمﷺ نے گلہ بانی بھی کی اور اپنے چچا ابو طالبؓ کے ساتھ شام کا سفر کیا اور اسی دور میں حضرت خدیجہؓ کا سامان لے کر تجارت کے لیے شام تشریف لے گئے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2iV2E8-x4GoMlv5Dwl58Q7yWaHWJoEgWHDXrWZ9bqeERh1mYPOlzWzYrZRzuYCT2Jw47YJQVqK5fdkkXErx1VM19kK_68p8pREtNamXJqQVs_25jaTREBxw0Sv4DmDXgbQSWt3eETU-Y/s1600-h/maurice-tiberius.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2iV2E8-x4GoMlv5Dwl58Q7yWaHWJoEgWHDXrWZ9bqeERh1mYPOlzWzYrZRzuYCT2Jw47YJQVqK5fdkkXErx1VM19kK_68p8pREtNamXJqQVs_25jaTREBxw0Sv4DmDXgbQSWt3eETU-Y/s400/maurice-tiberius.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395911532721614242" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ماؤریس تبریس کے سونے کے آدھے دینار سیمیس کا وزن 2.142 گرام ہے اور قطر 18.3 ملی میٹر ہے۔ (پورا دینار سولڈیوس تقریباً 4.445 گرام کا ہوتا تھا)دینار کے ایک رُخ پر ماؤریس تبریس موتیوں کا تاج پہنے ہوئے ہے اور دوسرے رُخ پر ایک فرشتہ کی شبیہ ہے جو ایک ہاتھ میں گول مالا یا حلقہ اور دوسرے ہاتھ میں صلیب لئے کھڑا ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh2FRu2lve8E0Fcq48G9tnrpCPIwysAgh-I6cYdTeHc0M2aM1P25w_btFJg_AmLPB0MfHEQVkwo3G6KOj_d4ycPacxb7mSqorVQm-0AYjzrX4tKmxFUcFjRdIc5GP6vdK2QPcu0WOzob14/s1600-h/maurice-tiberius2.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh2FRu2lve8E0Fcq48G9tnrpCPIwysAgh-I6cYdTeHc0M2aM1P25w_btFJg_AmLPB0MfHEQVkwo3G6KOj_d4ycPacxb7mSqorVQm-0AYjzrX4tKmxFUcFjRdIc5GP6vdK2QPcu0WOzob14/s400/maurice-tiberius2.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395911537186586962" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">موریس تبریس کے کانسی کے دینار کا وزن 11 گرام اور قطر 3 سینٹی میٹر تھا اور آدھا دینار (ہاف فولس) 5.54 گرام اور 22 ملی میٹر کا تھا۔<br />بعض دیناروں کا وزن 11.91 گرام تک بھی تھا۔ چاندی کے دیناروں پر نقش تصویروں میں موریس تبریس تاج پہنے ایک ہاتھ میں شیلڈ اور ایک ہاتھ میں صلیب لئے ہوئے ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgoLBPF85MBugrHW2xtaPIkid3LMQzYEKcj8dZkDMTC_COxAp8fw2GAM_819A_XgFsDMwbQv8q3nquAdSnqN7-C-BN61oUhbZVNfSojdwQSA9ywFobssj2GTkeq4tPk5pvFt42nfHY7G3I/s1600-h/maurice-tiberius3.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgoLBPF85MBugrHW2xtaPIkid3LMQzYEKcj8dZkDMTC_COxAp8fw2GAM_819A_XgFsDMwbQv8q3nquAdSnqN7-C-BN61oUhbZVNfSojdwQSA9ywFobssj2GTkeq4tPk5pvFt42nfHY7G3I/s400/maurice-tiberius3.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395911544463308786" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">موریس تبریس کے بعد تھیوڈوسس کی حکمرانی کا دور آیا مگر اس کے جاری کردہ سکے دریافت نہیں ہوسکے۔<br /><br />اُدھر فارس میں ہرمزد چہارم کے عہد میں اس کے سپہ سالار بہرام چوبس نے بغاوت کردی اور ہرمزد چہارم کو قتل کرکے تخت پر بیٹھ گیا اور ایک برس تک حکومت کرتا رہا۔ اس کے جاری کردہ سونے کے درہم کا وزن 3.99 گرام سے 4.13 گرام تک تھا اور قطر 31 ملی میٹر.....<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOSEOEV1hIGeeIWdYVR1phJzoHjniFSgY1yno1fm4eFGdR0qLvg0vHaW7DnBy2_QBMEwDNaTxftmf7R4408s6DriyK6IDGpoul-pKxduTdps9lgy54HNDWztx92rf-H9ifBdMk8WYWYuk/s1600-h/varhhran-iv.gif"><img style="cursor: pointer; width: 150px; height: 150px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOSEOEV1hIGeeIWdYVR1phJzoHjniFSgY1yno1fm4eFGdR0qLvg0vHaW7DnBy2_QBMEwDNaTxftmf7R4408s6DriyK6IDGpoul-pKxduTdps9lgy54HNDWztx92rf-H9ifBdMk8WYWYuk/s400/varhhran-iv.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395915350897540130" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اس پر بہرام کی تصویر نقش تھی۔<br />بہرام کے قتل کے بعد خسروپرویز دوم فارس کا کسریٰ بنا۔ ابتداء میں خسرو نے ہرمزد چہارم کے سالے یعنی اپنے ماموں وستم اور اپنے بھائی ہرمزد پنجم کے ساتھ مشترکہ حکومت کی۔ وستم نے بھی اپنے دورِ حکومت میں سونے کے دینار جاری کئے جس پر اس کی تصویر نقش تھی۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhEM9EP7Nax9VWSUMIcUMOIZg9dWdh1qhWdplXmwTtHUaYChdq9iK1IAtHFFNo7-ZJwLa1Jx2tpTUxnCHkk67bz5FNkeDN8wKxQHptbaPM-iH3r9g3hbPHiTzRLaYdFHp2IXHxV-PQ_lCM/s1600-h/vistahm.gif"><img style="cursor: pointer; width: 151px; height: 157px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhEM9EP7Nax9VWSUMIcUMOIZg9dWdh1qhWdplXmwTtHUaYChdq9iK1IAtHFFNo7-ZJwLa1Jx2tpTUxnCHkk67bz5FNkeDN8wKxQHptbaPM-iH3r9g3hbPHiTzRLaYdFHp2IXHxV-PQ_lCM/s400/vistahm.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395915356506405826" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اس کا وزن پچھلے دیناروں کی طرح تقریباً 4 گرام کے قریب ہی تھا....خسرو دوم 38 برس کے طویل عرصے تک حکومت کرتا رہا۔ اسی کے عہد کی ابتداء میں حضور پاکﷺ نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور حضرت خدیجہؓ کا سامانِ تجارت لے کر شام گئے۔ بیرونِ ملک میں سفرِ تجارت، آغازِ وحی، اعلانِ نبوت اور ہجرت کے واقعات اسی کسریٰ کے عہد میں رونما ہوئے اور یہی وہ کسریٰ تھا جسے رسول اﷲﷺ نے دعوتِ اسلام دینے کے لئے مکتوب گرامی ارسال فرمایا اور اس بدبخت نے اُسے چاک کردیا تھا.....<br /><br /></span><span style="font-size:130%;">خسرو دوم کے سونے کا درہم خسرو اول کے درہم سے ملتا جلتا تھا۔ اس کے ایک طرف خسرو دوم تاج پہنے ہوئے ہے جس پر خسروی افضوئی ’’خسرو مبارک ہے‘‘ لکھا تھا اور دوسری طرف ایک آتش کدہ اور اس کے دو نگہبان یا پروہت کی شبیہ نقش تھی۔ اس کے نیچے سکے کے اجرا کا سن لکھا تھا۔<br />سامنے دیا گیا سکہ خسرو کی حکومت کے بیسویں برس کا ہے جب حضور پاکﷺ تجارت کی غرض سے شام، جرش، یمن وغیرہ تشریف لے گئے۔ اس درہم کا وزن 4.2 گرام اور قطر 31 ملی میٹر ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg1t0lRCD8D7pk99nY14lHSMrGEOOiLDqjH8Q6w1KLYSNkTfJY0oB5-Vq7ykbwm0lPub9AQTVnDPCC7GrLJkT5MUSwTvP0mz0UsO8mx4BiyrzNd5vm8dViwseU7nwha2y0xtl5hFjEORtw/s1600-h/khusro-ii.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg1t0lRCD8D7pk99nY14lHSMrGEOOiLDqjH8Q6w1KLYSNkTfJY0oB5-Vq7ykbwm0lPub9AQTVnDPCC7GrLJkT5MUSwTvP0mz0UsO8mx4BiyrzNd5vm8dViwseU7nwha2y0xtl5hFjEORtw/s400/khusro-ii.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395916728625662290" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">رسول اﷲﷺ کی تجارت کے زمانے میں یہی درہم رائج تھے۔ خسرودوم کے درہم سال بہ سال تبدیل ہوتے رہتے۔ ان کا اوسطا وزن 4.12 گرام سے 4.2 گرام تک ہوا کرتا تھا اور قطر 3.1 سینٹی میٹر ہی تھا۔<br /><br />سن 602 عیسوی میں قیصر فوکاس رومی سلطنت میں تخت نشین ہوا اور آغازِ نبوت یعنی 610ء تک حکمران رہا۔فوکاس کے کانسی کے دینار پر اس کی تصویر ہے جس میں وہ تاج پہنے ہوئے ہے اور پشت پر رومی ہندسے میں اعداد درج ہیں جو اس کی مالیت کو ظاہر کرتے ہیں۔<br /><br />اس کا وزن 11.69 گرام تھا۔<br />فوکاس کے کانسی کے بعض دینار 2.36 گرام اور 16 ملی میٹر کے ہیں۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEje_vVCR8uvZhXsbNf_ILQYB8QcfDAA3uMProEE1SJ5vIjSoQcVIHRKVzyNiI7b9a8ln2TubJvbKaSkw5p8RCEWs_tGtyd1hUKun8A0xfloxx47IvWzlyHpTAW9yBQQzub-IaOXLz0bsy4/s1600-h/phocas.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEje_vVCR8uvZhXsbNf_ILQYB8QcfDAA3uMProEE1SJ5vIjSoQcVIHRKVzyNiI7b9a8ln2TubJvbKaSkw5p8RCEWs_tGtyd1hUKun8A0xfloxx47IvWzlyHpTAW9yBQQzub-IaOXLz0bsy4/s400/phocas.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395919526388683602" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">فوکاس کے چاندی کے دینار کا وزن 4.45 گرام اور قطر 21 ملی میٹر تھا۔ جس پر بنے نقش میں وہ تاج پہنے ہوئے ہے اور اُس کے ہاتھ میں صلیب ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjioNgEIuAaMlw7t-MH8cFp2LGCE5U4dkwASK4XH-RXP-EaK7sXP5rAC8Gz8rZSvSVJEK9hemJGrUb_2zbD6NKG3x68SuH0MuhILyxuQJR928LDoDRJzMdBntf-ye7XoSP6UWulPgb_tfY/s1600-h/phocas2.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjioNgEIuAaMlw7t-MH8cFp2LGCE5U4dkwASK4XH-RXP-EaK7sXP5rAC8Gz8rZSvSVJEK9hemJGrUb_2zbD6NKG3x68SuH0MuhILyxuQJR928LDoDRJzMdBntf-ye7XoSP6UWulPgb_tfY/s400/phocas2.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395919531304552530" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">قیصر روم فوکاس کے بعد ہرقل کی تخت نشینی ہوئی۔ ہرقل 641ء تک حکمران رہا..... حضور نبی کریمﷺ کے اعلانِ نبوت سے لے کر آپﷺ کے وصال تک کا دور ہرقل کے عہد حکمرانی میں ہی گزرا تھا۔<br /></span><span style="font-size:130%;">ہرقل کے جاری کردہ سونے کے دینار میں ایک دینار کا وزن 4.441 گرام اور قطر 21.4ملیمیٹر تھا۔ اس دینار کے سامنے کے حصّہ پر ہرقل کی تصویر نقش ہے جو تاج اور شاہی لباس پہنے ہوئے ہے اور اُس کے دائیں ہاتھ میں ایک صلیب ہے..... دوسرے رُخ پر چار سیڑھیاں ہیں اوپر ایک صلیب بنی ہوئی ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVFyh0mznt0814bkW6dInYJv1gacGBBr66djhLExf8S-KkD5lD5znbiQnMhDz3os1vFAvGErEZ92uD66j0_oQDfEpt69fj7DoqG3cxU0muzouB0Mu785OXNGsgjLICmt0f82EyEn2NWMk/s1600-h/heraclius-1.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVFyh0mznt0814bkW6dInYJv1gacGBBr66djhLExf8S-KkD5lD5znbiQnMhDz3os1vFAvGErEZ92uD66j0_oQDfEpt69fj7DoqG3cxU0muzouB0Mu785OXNGsgjLICmt0f82EyEn2NWMk/s400/heraclius-1.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395928573759700226" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">حضور نبی کریمﷺ کے سالِ وصال 632ء میں ہرقل کے دینار میں ایک اور تبدیلی لائی گئی اور اس میں ہرقل کے ساتھ ہرقل کے جوان بیٹے ہرقل قسطنطین اور سات سالہ بیٹے ہرقلون کی بھی تصویر نقش کی گئی.....<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixD-KymP6V7BUoxi_jov9aXeTo396YpdPvKnPTWGQUyJrCuhW-y1qgGHWE_6PAJmD12slVMc1dPm6YurfQyHTTrcPzLOJxoKtK0X7AaGF1W3zDtNDRAOGolcBm4wXkNQhQW1cQv4bC-w0/s1600-h/heraclius-3.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixD-KymP6V7BUoxi_jov9aXeTo396YpdPvKnPTWGQUyJrCuhW-y1qgGHWE_6PAJmD12slVMc1dPm6YurfQyHTTrcPzLOJxoKtK0X7AaGF1W3zDtNDRAOGolcBm4wXkNQhQW1cQv4bC-w0/s400/heraclius-3.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395928579958792370" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">اس دینار کا وزن 4.41 گرام اور قطر 19.1 ملی میٹر تھا۔ اسی نقش کے بنے ہوئے چاندی کے دینار بھی تھے جن کا وزن 4.47 گرام تھا۔ اس دوران دوسرے دینار بھی رائج تھے۔<br />ہرقل نے کانسی کے دینار فولس بھی جاری کئے۔ 612ء میں جاری کئے گئے ان دیناروں پر ہرقل اور اُس کے بیٹے ہرقلس قسطنطین کی تصویر نقش تھی۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjE7am_Blie9uCdEtwsDK7Vnp2_oPzSrdGjL9U7Tfeij9uIyFGuM8uhdWHjbOlvmWNRuthO4mTpzxy9rxDWknxiYtS-NRYzcrK7KNODPZLZ7CplRnJGjCzANnPO3s0JN23WkG-ktMG0g6s/s1600-h/heraclius-2.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjE7am_Blie9uCdEtwsDK7Vnp2_oPzSrdGjL9U7Tfeij9uIyFGuM8uhdWHjbOlvmWNRuthO4mTpzxy9rxDWknxiYtS-NRYzcrK7KNODPZLZ7CplRnJGjCzANnPO3s0JN23WkG-ktMG0g6s/s400/heraclius-2.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395928577920948306" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ان کا وزن 12.78 گرام اور قطر 31 ملی میٹر ہے۔<br />بعض سکوں کا وزن 11.10 گرام سے 12.60 گرام تک ہے اور بہت سے کم مالیت کے بھی ہیں۔ مثلاً ایک سکہ جس پر ہرقل اور اس کے بیٹے ہرقلس قسطنطین اور ملکہ مارطینہ کی تصویر نقش ہے اس کا وزن 5.84 گرام ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhC5r3_k4bXTxUSpXHlZkSeeE02y8jINwlW11H1JoxIl6k0HPNg5hvzAx4o118dfOSbpBJ0s_YOo7qpIzTXwolq6WqhxWoWN18cMcSdEIrLvSbiFgIuf3rwSdvODwrSshrc-1bgeJHnexU/s1600-h/heraclius-4.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhC5r3_k4bXTxUSpXHlZkSeeE02y8jINwlW11H1JoxIl6k0HPNg5hvzAx4o118dfOSbpBJ0s_YOo7qpIzTXwolq6WqhxWoWN18cMcSdEIrLvSbiFgIuf3rwSdvODwrSshrc-1bgeJHnexU/s400/heraclius-4.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395928584271057266" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بعض کانسی کے دینار 3.05 اور 4.15 گرام وزنی بھی ہیں جن پر ہرقل کی تصویر نقش ہے۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiKceL7MOTY5RILHbGLg1hyXI181ZZ_abU0s3617gIXWeYYLHxNLPmsQWqz4AuTybE6SleL0-IsPCy2GKFfS2KgzIGdI1El68wnopMRodcO133qj5Lfcsxg8XA5QcErm_DW30O6XIXSkCw/s1600-h/heraclius-5.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiKceL7MOTY5RILHbGLg1hyXI181ZZ_abU0s3617gIXWeYYLHxNLPmsQWqz4AuTybE6SleL0-IsPCy2GKFfS2KgzIGdI1El68wnopMRodcO133qj5Lfcsxg8XA5QcErm_DW30O6XIXSkCw/s400/heraclius-5.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395928589610759714" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;"> عام طور پر کانسی کے دینار صرف روم کے ہی چند علاقوں میں رائج تھے ورنہ بین الاقوامی طور پر سونے اور چاندی ہی کے دینار اور درہم رائج تھے.....<br /></span><span style="font-size:130%;"><br />613ء کے بعد ہرقل نے چند دینار کے سامنے کے رُخ میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ ان میں ہرقل کے ساتھ اس کے بیٹے ہرقلس قسطنطین کی بھی شبیہ دینار پر نقش کی گئی۔ اس دینار کا وزن 4.415 گرام اور قطر 21.3 ملی میٹر تھا۔ یہ دینار 620ء تک جاری رہا یعنی ہجرتِحبشہ ، شعب ابی طالب میں محصوری اور رسول اکرمﷺ کے سفرِطائف کے موقع پر یہی دینار رائج تھا۔<br /><br /></span><span style="font-size:130%;"><br />کسریٰ خسرو دوم کو اس کے بیٹے قباد دوم (شیرویہ) نے قتل کردیااور حکمراں بن بیٹھا<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhGaWRs6mZdVta2CCsYtTNOBTkKEZzsGUY79vJDHgW9xEOCdmpE5bXyZaC8rR4tN-EX_RZNlIvc57EYcOoXbv7JK7-mqq-TiFUhrUKU9X9BhfQPzsn8t34RkLz8StsbxZ1FZCNKZbnEQJ0/s1600-h/kavad-ii.gif"><img style="cursor: pointer; width: 140px; height: 148px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhGaWRs6mZdVta2CCsYtTNOBTkKEZzsGUY79vJDHgW9xEOCdmpE5bXyZaC8rR4tN-EX_RZNlIvc57EYcOoXbv7JK7-mqq-TiFUhrUKU9X9BhfQPzsn8t34RkLz8StsbxZ1FZCNKZbnEQJ0/s400/kavad-ii.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395930651097222626" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;"> قباد دوم</span><span style="font-size:130%;"> بھی زیادہ عرصے حکمران نہ رہ سکا۔ چار سالوں میں 12 حکمران آئے،<br /><br />اردشیر سوم<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSl9t2_0ekMILAJTrLDXOXVVuDYp0xkf8q2-P33rLaAq6eIFDExlFkjnpsThjeEjVVLa6OTJGp6OP7tS2TyuIz6q9XazWILrQfVWT_lksM5s4OQvEiFFmfP32lvpenyoNVFM55PJg0HnQ/s1600-h/Ardashir-III.gif"><img style="cursor: pointer; width: 146px; height: 156px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSl9t2_0ekMILAJTrLDXOXVVuDYp0xkf8q2-P33rLaAq6eIFDExlFkjnpsThjeEjVVLa6OTJGp6OP7tS2TyuIz6q9XazWILrQfVWT_lksM5s4OQvEiFFmfP32lvpenyoNVFM55PJg0HnQ/s400/Ardashir-III.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395930654814850642" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">خسرو سوم<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgYWqrF37gRtDq4ONcWZ7kgGC8pJgr8DFuJXeuX_s_9pzLq61KSPnJAiNkXxiRSFcIo5w2Oni6Pkq87IvHHTk2vxzAKVrXiilUlEuf1NQHoRXEH6Ch9fEA23sgvNstrmUM8kLhyphenhyphenhec02DA/s1600-h/khusro-iii.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgYWqrF37gRtDq4ONcWZ7kgGC8pJgr8DFuJXeuX_s_9pzLq61KSPnJAiNkXxiRSFcIo5w2Oni6Pkq87IvHHTk2vxzAKVrXiilUlEuf1NQHoRXEH6Ch9fEA23sgvNstrmUM8kLhyphenhyphenhec02DA/s400/khusro-iii.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395933909544355554" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">بوران<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhTgJi-hpi6qhEHbBUWa1JfMlbOMXd-TzckiqtYXCkcSt2H-az4UKpMQB_cVozsJZShPY8EnAoAQlFB4VZjmKMspGJ9NBuMV-356fCgwTxbVGtryA_0LS7dtmsGhGocirxSy7tD1jx3H-M/s1600-h/buran.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhTgJi-hpi6qhEHbBUWa1JfMlbOMXd-TzckiqtYXCkcSt2H-az4UKpMQB_cVozsJZShPY8EnAoAQlFB4VZjmKMspGJ9NBuMV-356fCgwTxbVGtryA_0LS7dtmsGhGocirxSy7tD1jx3H-M/s400/buran.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395930659855614834" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">آزر مدخت<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzeF0p7EHhX2SSb0te_DIdCIIlWWBBJFTlJID05C6v9l-EcI1OYEgeHOq6OHuVjUsI9sSZb_A0Jsum92jSTfNNJp1-5cYMYrh0bfiXTjN8-UXd3gu_l37N9JjbF8SdrCn1005OPECVcbg/s1600-h/Azarmidukht.gif"><img style="cursor: pointer; width: 140px; height: 140px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzeF0p7EHhX2SSb0te_DIdCIIlWWBBJFTlJID05C6v9l-EcI1OYEgeHOq6OHuVjUsI9sSZb_A0Jsum92jSTfNNJp1-5cYMYrh0bfiXTjN8-UXd3gu_l37N9JjbF8SdrCn1005OPECVcbg/s400/Azarmidukht.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395930665247765762" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">ہرمزد ششم<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWPA65wUEScNSu48Q1XjBbOg3kQ0ZWr63BNJ0ZX9FqTicuBG90oIp2fGOHzvg6CboF0QtgqTGlDTaAXYmfSrzqMP8m9sHet4Equ4nzBAN7mRpSwJBkjLnggTa2mURX_cjWzir6v3ASV34/s1600-h/hormazd-vi.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWPA65wUEScNSu48Q1XjBbOg3kQ0ZWr63BNJ0ZX9FqTicuBG90oIp2fGOHzvg6CboF0QtgqTGlDTaAXYmfSrzqMP8m9sHet4Equ4nzBAN7mRpSwJBkjLnggTa2mURX_cjWzir6v3ASV34/s400/hormazd-vi.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395933914509640690" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">خسرو چہارم و پنجم<br /><br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWyrry5fKFexl2FFURUFnh2j37kVyuXSdgHgXwXubey_i-0gI0aKV9YcgVTfB1cABN41oyt7H-lWYLNW9TBXupUG-OlZt5oATIpqMvsy9V0Tgu64y6_hBnDdhvtdAYjDrMmi5jjuj-N6M/s1600-h/khusro-iv-v.gif"><img style="cursor: pointer; width: 250px; height: 128px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWyrry5fKFexl2FFURUFnh2j37kVyuXSdgHgXwXubey_i-0gI0aKV9YcgVTfB1cABN41oyt7H-lWYLNW9TBXupUG-OlZt5oATIpqMvsy9V0Tgu64y6_hBnDdhvtdAYjDrMmi5jjuj-N6M/s400/khusro-iv-v.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395933918377133970" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">آخری ساسانی حکمراں یزدگرد سوم نے سلطنت کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ ان تمام ساسانی حکمرانوں کے سکّے درہم کا وزن 3.7 گرام سے 4.2 گرام کے درمیان ہی تھا اور ان کا قطر 3.1 سینٹی میٹر تھا۔<br /><a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBMB8mbB16KfukIQZS2I1ipRD2K9fd9Bvg2fk4se4_1197PMaUn1T83Xnr5WH6lrSC-l5WoqMbVcqUlJSSqinMUOohuq1MxSiqQZtvMPdzY4U9xkYnrqZ_xSBnut07yGIFZNmvVC2ddsE/s1600-h/Yazdgard-iii.gif"><img style="cursor: pointer; width: 152px; height: 152px;" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBMB8mbB16KfukIQZS2I1ipRD2K9fd9Bvg2fk4se4_1197PMaUn1T83Xnr5WH6lrSC-l5WoqMbVcqUlJSSqinMUOohuq1MxSiqQZtvMPdzY4U9xkYnrqZ_xSBnut07yGIFZNmvVC2ddsE/s400/Yazdgard-iii.gif" alt="" id="BLOGGER_PHOTO_ID_5395933921319295698" border="0" /></a><br /></span><span style="font-size:130%;">یہ سب درہم حضور کی مدنی زندگی کے آخری چار سالوں کے دوران رائج تھے اور خلفائے راشدین کے عہد میں بھی جاری تھے۔<br />عموماً عہدِ نبویؐ میں مروّج درہم اور دینار کے وزن میں معمولی سا فرق ہوتا تھا۔ درہم 3.7 سے 4.2 گرام تک کے تھے اور دینار 4.1 سے 4.5 گرام تک وزن کے..... مگر ان کی قدر میں کافی فرق تھا، اس کی وجہ یہ تھی روم کی بازنطینی سلطنت فارس کی ساسانی سلطنت سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی۔<br /><br /></span><span style="font-size:130%;">یہ تمام دینار اور درہم آج بھی کئی ترقی یافتہ غیر مسلم ملکوں کے بہت سے میوزیم میں محفوظ ہیں، جن میں امریکن نیومسمیسٹک سوسائٹی، فیڈرل ریزرو بینک۔ نیویارک، اسٹیٹ ہرمیٹیج میوزیم، سینٹ پیٹرزبرگ۔ روس، فوروم اینسےئنٹ کوئن میوزیم۔ نارتھ کیرولینا، امریکہ، برلن میوزیم اور برٹش میوزیم بھی شامل ہیں۔<br /></span></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-45736254287985897922009-10-23T13:11:00.000-07:002010-06-15T08:57:34.273-07:00577 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;">سن 577عیسوی<br /> حضرت محمدﷺ کا حضرت آمنہؓ اور ام ایمن کے ہمراہ مدینہ کا سفر اور بنی نجار کے محلہ میں قیام<br /> حضرت آمنہؓ کا مدینہ سے واپسی پر انتقال۔ ام ایمن کے ہمرا ہ مکہ واپسی<br />برطانوی (ویلش) قبائل کو اینگلو سیکسن کے خلاف جنگ درہم میں شکست<br />چین کی قی سلطنت پرہؤزہوکے بعد یوزہواور پھر فان یانگ وانگ کی حکومت<br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-91933928243595824872009-10-23T13:10:00.000-07:002010-06-15T08:57:22.346-07:00576 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 576عیسوی</span><br /> دائی حلیمہ سعیدہؓ حضرت محمدﷺ کومکہ لائیں ۔ حضرت آمنہؓ اور ام ایمن کی زیرسرپرستی</span></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-42349675841580373832009-10-23T13:08:00.000-07:002010-06-15T08:57:09.703-07:00575 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 575عیسوی</span><br />حضور ﷺ کے ساتھ شق الصدر کا واقعہ پیش آیا۔ ذوالمجاز کے قیافہ شناس کے پاس آپ ﷺ کو لے جانا<br />پاپ جان سوم کی جگہ پاپ بینڈکٹ نے لی(2جون)<br />شمالی اور جنوبی فوک کے باشندوں نے مشرقی اینگلیہنامی سلطنت کی بنیاد ڈالی<br />بازنطینی سلطنت کے مشہور بادشاہ ہرقل کی پیدائش<br /><br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-15981160100716397702009-10-23T13:05:00.000-07:002010-06-15T08:56:54.569-07:00574 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 574عیسوی</span><br />حضور ﷺ اپنی رضاعی بہن حضرت شیما اور دیگر رضاعی بھائیوں کے ہمراہ بکریاں چراتے<br />صحابئ رسول ذوالنورین حضرت عثمان غنیؓ کی پیدائش<br />رومی شہنشاہ جسٹن دوم تخت سے دست بردار اورماؤرس تبریس کی تخت نشینی<br />ڈیلریڈاپر ایڈن میک گبرائن کی تخت نشینی<br />عیسائی رہنما پوپ جان سوم کی وفات(7 جولائی)<br />.لمبارڈ کے حکمراں کلیف اپنے غلام کے ہاتھوں قتل۔ لمبارڈ میں دورِ انتشار آئندہ دس سالوں تک کوئی حکمراں نہیں رہی گا۔<br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-22917679817486214032009-10-23T13:03:00.000-07:002010-06-15T08:56:42.535-07:00573 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 573عیسوی</span><br />رضاعت کے بعددائی حلیمہ سعیدہؓ حضرت محمدﷺ کومکہ لائیں مگر دوبارہ بنی سعد کے قبیلہ لے گئیں ۔<br />اس سال آلفیڈرائڈ کی جنگ کا واقعہ ہوا جس میں گوینڈالو، گورگی اور پریڈر کی افواج نے حصہ لیا یہ تینوں الیفرکے بیٹے تھے۔<br />اس سال رومی جرنیل نارسیس کی موت واقع ہوئی<br />رومی عبادت خانہ میں ایک نئے راہب کی آمد جو (590ء میں)پوپ گریگوری کے لقب سے جانا جائے گا۔<br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-11573601564492273902009-10-23T12:59:00.000-07:002010-06-15T08:56:31.114-07:00572 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 572عیسوی</span><br />اس پورے سال حضرت محمدﷺ بنی سعد کے قبیلۂ ہوازن میں مقیم رہے جہاں آپ کی پرورش حلیمہ سعیدہؓ اور اُن کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ نے کی اور آپﷺ کی رضاعی بہن شیماؓ السعیدہ آپؐ کو کھلاتیں اور لوریاں سناتیں<br /> حضرت محمدﷺ کے دوست اور رفیق ’’یارِ غار‘‘ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی پیدائش<br />رومی شہنشاہ جسٹن دوم کا فارس کے خلاف تیسری عظیم جنگ کا اعلان جو آئندہ تیس برس تک جاری رہی<br />فارس کے بادشاہ خسرو اوّل نے شام پر حملہ کرکے اُسے پامال کرڈالا<br />خیمر خاندان کے حکمرانوں نے کمبوڈیا کو جنوب مشرق کا طاقتور ترین ملک بنادیا<br />جاپان میں نئے شہنشاہ بداسو کی تخت نشینی جس نے بدھ مت کو فروغ دینا شروع کردیا<br />لمبارڈ کے حکمراں البیون کی وفات اور کلیف کی تخت نشینی<br />رومی شہنشاہ جسٹن دوم نے ہاتھی دانت کا بنا تخت آرچ بشپ میکسی میان کی نذر کیا<br />جاپان کے شہزادے شتوکو کی پیدائش<br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-25835802219425538102009-10-23T12:57:00.000-07:002010-06-15T08:56:20.269-07:00571 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 571عیسوی</span><br />مکّہ پر یمن کے گورنر ابرہہ کا کعبۃللہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے حملہ اور ناکامی۔ (واقعہ اصحاب الفیل)<br />یمن کے گورنر ابرہہ شکست خوردہ واپس بھاگ کھڑا ہوا اور صنعا کے مقام پر اس کی موت ہوگئی<br />حضورﷺ کے والد عبداللہؓ بن عبدالمطلب کی تجارتِ شام سے واپسی پر مدینہ منورہ میں وفات<br />سرورِ کائنات حضرت محمدﷺ کی پیدائش (20اپریل)<br />ایوانِ کسریٰ میں زلزلہ سے محل کے چودہ کنگرے گرگئے اور آتش کدۂ ایران بجھ گیا<br />حضرت دائی حلیمہ سعیدہؓ حضرت محمدﷺ کو بنی سعد کے قبیلۂ ہوازن لے گئیں<br />جاپان کے شہنشاہ کیمی اور وسگاتھ کے بادشاہ لیوا اوّل کی وفات<br />چین کے ریاضی دان چن لوآن نے ایک طرح کا کیلکولیٹر ایجاد کیا</span></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-25063720954136780262009-10-23T12:55:00.000-07:002010-06-15T08:56:07.437-07:00570 AD<div style="text-align: right;"><span style="font-size:130%;"><span style="font-size:180%;">سن 570عیسوی</span><br />حضور ﷺ کے والد عبداللہؓ بن عبدالمطلب کی شادی حضرت آمنہؓ سے ہوئی<br />برطانیہ کے مؤرخ گلڈاس کی وفات<br />ہندوستان میں شاعر اور فلسفی بھرتری ہری کی پیدائش<br />ہندوستان سے شطرنج ایران درآمد کی گئی<br />رومی شہنشاہ جسٹن دوم کی زیرِ سرپرستی بازنطینی فنِ تعمیر کا عروج<br />یروشلم کا مفصل نقشہ تیار ہو رہا ہے جس میں ایک ایک گلی کو واضح دیکھا جاسکتاہے<br />مصر اور روم تک چین کے درآمد شدہ ریشم کے کپڑے بُننے جارہے ہیں<br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-22950888088877052972009-10-21T13:21:00.000-07:002010-06-15T08:55:14.904-07:00Till 570 AD.<div style="text-align: right;"><span style="font-size:180%;">سن 570ء تک</span><br /><span style="font-size:130%;">سن 570 عیسوی میں جنوبی یورپ اٹلی سے شام اور ترکی سے مصر رومی شہنشاہ <span style="color: rgb(0, 153, 0);">جسٹن دوم</span> کی حکومت تھی (جو گذشتہ 565 ء سے قائم تھی) بازنطینی سلطنت یوں تو شہنشاہ <span style="color: rgb(0, 153, 0);">جسٹن دوم</span> کے ہاتھ میں تھی مگر فیصلے وہاں کے مذہبی عالم آرچ بشپ میکسی میان اور پاپائے روم پاپ جان سوم کے بغیر نہیں ہوتے ۔ اور عسکری باگ دوڑ سپہ سالار جرنیل نارمیس کے ہاتھ میں تھی۔<br />اس دور میں عرب چھوٹے چھوٹے قبائل میں بٹا ہوا تھا اُن پر کوئی باقاعدہ حکمران نہیں تھا<br />حبشہ پر بادشاہ<span style="color: rgb(0, 153, 0);"> نجاشی</span> کی حکومت اور اس کے ماتحت گورنر ابراہہ کی جنوبی عرب اور یمن میں تھی<br />شام، ایران اور عراق میں ساسانی سلطنت کے بادشاہ <span style="color: rgb(0, 153, 0);">اکاسر اوّل</span> (کسریٰ ، خسرو اوّل) کی حکومت جسے لوگ نوشیرواں عادل کے لقب سے پکارتے تھے<br />یورپ کے شمال مشرق حصّے مختلف سلطنتوں(فرینک، اینگلوسیکسن، وزی گاتھ، لومبارڈ، ڈینس، نورس، آئرش، اسکاٹس، اور ہسوئڈس)میں بٹا ہوا تھا<br />بازنطینی سلطنت کے مغربی صوبوں پر جرمن نسل اقوام فرینک، اینگلوسیکسن اور لومبارڈنے حکومتیں قائم رکھیں تھیں<br />اس وقت لمبارڈ میں البیون، وسگاتھ میں لیوا، کینٹ میں ایتھل برٹ، وسیکس میں سیاولِن اور فرینک میں کلوتھائر اوّل کی حکومت تھی<br />فرینک کے بادشاہ کلوتھائر اوّل کی وفات (566ء) کے بعد فرانک تین حصّوں میں تقسیم ہوگیا جنہیں آسٹریشیا(جرمنی)، برگنڈی اور نسطوریہ(فرانس) کا نام دیا گیا۔<br />ہندوستان میں مہاراجہ ’’پربھاکر وردھن‘‘ کی حکومت<br />ریاست بے جا پور میں راجہ پلک سین کی چالوکیہ سلطنت قائم تھی<br />چین اس وقت کئی سلطنتوں میں تقسیم تھا اور سب سے بڑی سلطنت پر چین وین ڈی ، نان لیانگ سلطنت پر ژوان ڈی اورشمالی قی سلطنت پر ووُ چینگ ڈی کے بعد ہؤزہوکی حکومت<br />جاپان میں شہنشاہ کیمی کادورِ حکومت جو آسو خاندان سے تعلق رکھتا ہے<br />یہ جنگوں کا عہد تھا ساکسون اور برٹش کے درمیان تیس سال سے جنگ جاری تھی، دوسری طرف یہی حال غزنی اور لخند کے دمیان تھا، لمبارڈ اور گاتھوں کے درمیان جنگ کے بعد لمبارڈ نے اٹلی پر قبضہ کر لیاتھا۔ ادھر چالوکیہ خاندان بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ روم اور فارس کے درمیان جاری دوسری عظیم جنگ چند برسوں کے لیے رُک گئی تھی۔ اسی دوران ترکوں اور ایرانیوں نے ہُن قبائل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تھا، دور مغرب میں امریکی تہذیب مایا نے بھی ٹکال نامی ریاست پر قبضہ کرلیا تھا۔<br />شہر وینس میں آبادکاری شروع ہوئی۔<br /></span><br /></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2248931236127702539.post-4598601323372606852009-10-18T13:22:00.000-07:002010-06-15T08:54:11.962-07:00عہد نبویؐ پروجیکٹ<div align="right"><span style="font-size:100%;">میں عرصہ سات سال سے </span><span style="color: rgb(0, 153, 0);font-size:180%;" >عہد نبویؐ پروجیکٹ</span><span style="font-size:100%;"> پر کام کررہا ہوں جس پر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کو پیش کرنا چاہتا تھا لیکن تحریر میں لاتے ہوئے یہ پروجیکٹ کافی طوالت اختیار کرگیا اس لیے اس کا واحد حل میں نے بلاگنگ کو سمجھا چنانچہ عہد نبویؐ میں موجود دنیا کے حالات پر تحقیق آپ کی خدمت میں پیش ہے-<br />(نوٹ یہ پروجیکٹ میں نے تاریخ کو مدنظر رکھ کر لکھا ہے اس لیے اس میں مذہبی عنصر کم شامل ہے، امید ہے آپ مایوس نہیں ہوں گے- بلاگ کی تحریر صحیح طور پر پڑھنے کے لیے </span><span style="font-size:100%;"><a href="http://www.esnips.com/nsdoc/1c3b705d-8305-427c-a41f-96cdf0fcfb4d/?action=forceDL"><span>اردو فونٹ</span></a> ڈاؤن لوڈ کرکے اپنی ونڈوز کے فونٹ فولڈر میں محفوظ کرلیں)- شکریہ<br />محمد ذیشان خان<br />imzeeshankhan@gmail.com<br /></span></div>محمد ذیشان خانhttp://www.blogger.com/profile/00038381903191041176noreply@blogger.com0