Saturday, October 31, 2009

Year By Year Atlas

دنیا عہد نبوی ﷺ میں
سال بہ سال
عہد نبوی ﷺ کے نقشہ


دنیا 550ء میں

دنیا 555ء میں

دنیا 560ء میں

دنیا 565ء میں

دنیا 570ء میں

دنیا 575ء میں

دنیا 580ء میں

دنیا 585ء میں

دنیا 590ء میں

دنیا 595ء میں

دنیا 600ء میں

دنیا 605ء میں

دنیا 610ء میں

دنیا 615ء میں

دنیا 620ء میں

دنیا 625ء میں

دنیا 630ء میں

دنیا 632ء میں

دنیا 635ء میں

دنیا 640ء میں

دنیا 645ء میں

دنیا 650ء میں

دنیا 655ء میں

دنیا 660ء میں


World Atlas

دنیا عہد نبوی ﷺ میں
عہد نبوی ﷺ کا اٹلس


دنیا 565 عیسوی میں


دنیا 600 عیسوی میں


دنیا 610 عیسوی میں


دنیا 700 عیسوی میں



بڑی اور نمایا تصویر کے لیے تصویر پر کلک کریں

Tuesday, October 27, 2009

Trade Routes

عہدِ نبوی ﷺ میں تجارتی سفر


عرب میں تجارتی سفر
علامہ ابوعلی مرزوقی ؒ کتاب ’’الازمنہ والامکنہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عرب میں کل13بڑے بازار لگتے تھے۔ جو ایک چین سسٹم کی طرح چلتے تھے، ’’دومۃ الجندل‘‘ شام اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے پندرہ دن کی مسافت پر جبلِطے کے قریب ربیع الاول میں لگتاتھا۔ یہاں شام اور روم کے تاجر آتے تھے۔ ’’مشقر‘‘ (موجودہ مسقط) نجران اور بحرین میں واقع تھا۔ دومۃالجندل کے اختتام پر تاجر یہاں آتے اور پورے جمادی الآخر یہیں رہتے۔ یہاں اہلِ فارس بڑی کثرت سے آتے تھے۔ ’’صُحار‘‘ کا بازار ماہِ رجب میں لگتا یہ یمن کی بستی عمان میں ایک پہاڑ سے متصل تھا۔ یہاں چین اور ہند کے تاجر آتے تھے۔ ’’دبّا‘‘ (موجودہ دُبئی) عمان کی بندرگاہ کا بازار تھا جو رجب کے اختتام پر لگتاتھا۔ سندھ، ہند اور چین کے تاجر یہاں آتے تھے۔ شحرمہرہ کا بازار عدن اور عمان کے درمیان ساحل پر لگتاتھا اور ہند ، فارس اور حمیر کے تاجر یہاں آدھا رمضان گزارتے تھے، پھر تجارتی قافلہ یمن کے دارلحکومت’’صنعاء‘‘ پہنچتا اور رمضان کے اختتام تک بازار جاری رہتاتھا۔ یہاں سے تجارتی قافلے دو حصوں میں بٹ جاتے ایک قافلہ حضر موت کے بازار’’سوق رابیہ‘‘ چلاجاتا اور دوسرا قافلہ نجد کے بالائی علاقے عکاذ کے بازار میں جاتا۔ یہ دو بازار ماہ ذی قعدہ میں لگتے تھے اور پھر ذوالحجہ کا چاند نظر آتے ہی بازار ذوالمجاز منتقل ہوجاتا جو عرفات سے تین میل دور لگتاتھا۔ حجاج اور مکہ کے لوگ اس میں ضرورشریک ہوتے تھے۔ان کے علاوہ سوق نطاۃ خیبر میں، سوق حجر یمامہ میں، سوق مجنہ جو ذوالمجاز اور سقی کے قریب واقع تھا۔ سوق دیرایوب،سوقِ بصریٰ اور سوق اذرعات بھی عرب کے مشہور بازاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ (الازمنہ والامکنہ ۔ مرزوقی)ممکن ہے کہ چین سسٹم کے ان بازاروں میں حضورپاک.. ﷺ نے بھی تجارتی سفر کیے ہوں اس موضوع پر چند روایات اور حوالے ملتے ہیں جنہیں ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔

عالمی تجارتی سفر



محمد رسول اللہﷺ کے تجارتی سفر
لڑکپن کے دور میں محمد رسول اللہ ﷺکے تجارتی اسفار کا تذکرہ ملتاہے۔ اس سفر میں آپ ﷺاپنے چچا ابو طالبؓ اور حضرت زبیرؓ کے ہمراہ شریکِ تجارت رہے۔ آپ ﷺ کے یہ اسفار یمن، بحرین اور شام کی طرف تھے۔
علامہ شبلی نعمانی سیرت النبیؐ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب سنِ شعور کو پہنچے تو اپنے چچا زبیرؓ کے ہمراہ تجارتی سفروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ بحوالہ:سیرت النبی : صفحہ31 آپ ﷺ نے دس سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت زبیرؓ کے ساتھ یمن کا سفر کیا۔ بحوالہ:تاریخِ محمدؐ۔ایم ڈی فاروق
بعض افراد آپ . ﷺ کی عمر15سے 19سال بتاتے ہیں۔ اس سفر میں آپ ﷺ کو تجارت کے اصولوں سے آگاہی ہوئی۔ اس تجارت میں آپ . ﷺ کے ساتھی تاجروں کو کافی منافع حاصل ہوا۔ بحوالہ:سیرت دحلانیہ۔ نقوش رسول نمبر جلد 2، روضہ الاحباب
رسالت مآب ﷺ کی عمر تقریباً بارہ سال کی ہوگی جب آپ . ﷺکے چچا جناب ابو طالب نے حسبِ دستور شام کے سفر کا ارادہ کیا آپ ﷺ بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ اس سفر کا ایک واقعہ مشہور ہے ۔ قافلہ نے جب شام کے شہر بصریٰ میں پڑاؤ ڈالا تو یہاں موجود صوامعہ(خانقاہ) کے ایک راہب بحیرا نے آپ ﷺ کے اوصاف کو پہچان لیا اور ابوطالب سے کہا کہ یہ پیغمبر آخر الزماں ہیں، انہیں واپس لے جائیں ، کہیں کوئی انہیں نقصان نہ پہنچادے۔بحوالہ:سیرت النبی ۔ علامہ شبلی، شواہد النبوت
ڈاکٹر حمید اﷲ اس سفر کو شام کے بجائے فلسطین کا سفر لکھتے ہیں۔بحوالہ:کتاب محمد رسول اﷲ، بصریٰ کا یہ بازار25دن لگاکرتاتھا۔ بحوالہ:الازمنہ والامکنہ۔ مرزوقی
نوجوانی میں حضوراکرم. ﷺ نے تجارت کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ چنانچہ حضور نبی کریم. ﷺ کی عمر بیس سال کی ہوئی تو آپ. ﷺ نے دوبارہ شام کی طرف سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے اور اسی سفر نے آپ دونوں کو زندگی بھر کا رفیق بنادیاتھا۔ بحوالہ:نقوشِ رسول نمبر جلد 2
حضور نبی کریم. ﷺ کی عمر جب پچیس برس ہوئی تو آپ ﷺ نے شام کا تیسرا سفر کیا۔ یہ وہ مشہور سفر ہے جس میں حضرت خدیجہؓ کے ملازم ’’میسرہ‘‘ آپ کے ہمسفر بنے۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے بصریٰ میں قیام فرمایا۔ یہاں بھی ایک راہب نسطورا کا تذکرہ ملتاہے۔ جب مکہ مکرمہ واپسی ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کے سامانِ تجارت کو پہلے کی نسبت دوگنامنافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ ﷺ کی صداقت و امانت سے معترف ہوکر حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ سے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ بحوالہ:الوفا، ابن جوزی، سیرت النبیؐ۔شبلی نعمانی، سیرت ابن ہشام
حضرت خدیجہؓ اور دیگر قریش تاجروں کے شراکت میں آپ ﷺ نے یمن کا بھی سفر کیا۔ اس سفر کے متعلق سیرت کی کئی کتب میں تذکرہ ملتا ہے۔ بحوالہ:سیرت النبی ۔ شبلی نعمانی، محمد رسول اﷲ ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ، سیرت الرسول من القرآن.....علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کے ساتھ جہاں جہاں سامانِ تجارت بھیجا ان میں ایک مقام’’جرش‘‘ بھی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے اور امام ذہبی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ جرش میں آپ ﷺ دومرتبہ تشریف لے گئے۔ بحوالہ:نور النبراس فی شرح سید الناس، بحوالہ: سیرت النبیؐ۔ شبلی نعمانی
ڈاکٹر حمید اﷲنے کتاب ’’رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’اگر یہ لفظ جرُش ہے تو یہ مکے کے جنوب میں طائف سے آگے یمن کے رخ پر اہم قلعہ بند شہری مملکت تھی اور وہاں بڑا بازار لگتاتھا اور اگر یہ جَرش ہے تو یہ مشرقی اردن میں ایک بہت بڑا یونانی شہر تھا‘‘۔ بحوالہ:رسول اﷲ ؐ کی سیاسی زندگی ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ:صفحہ61
طبری نے امام شہاب الزہری کے حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے کہ حضرت خدیجہ نے حضور ﷺ اور قریش کے ایک شخص کو اُجرت پر سوقِ حباثہ بھیجا جو تہامہ میں ہے۔ مکے کے جنوب میں چھ دن کے راستہ پر یمن کے رُخ پر۔ حباثہ کا میلہ رجب میں تین دن لگتا تھا۔ بحوالہ:تاریخ طبری۔ جلد دوم، حصہ اول:صفحہ73، یاقوت حموی اس مقام کا صحیح نام حُباشہ بتاتے ہیں۔ بحوالہ:معجم البلدان۔ یاقوت حموی
تجارت کی غرض سے بحرین کی دوبندرگاہوں مشقر اور دَبا جو آج مسقط اور دبئی کے نام سے جانا جاتاہے کے سفر کا احوال بھی اکثر روایات میں ملتاہے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ مسند احمد کی حدیث روایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسند احمد (ج4صفحہ206) میں ایک واقعہ تحریر ہے کہ مشرقی عرب یعنی بحرین سے قبیلۂ عبدالقیس کا ایک وفد حضورپاک ﷺ کی حیات کے آخری دور میں مدینہ آکر باریاب ہوا اور آپ ﷺ نے اُن سے ان کے ملک کے بارے میں بعض تفصیلی باتیں بیان کرکے کیفیت پوچھی تو وہ لوگ حیران رہ گئے اور کہنے لگے’’ آپ ﷺ ہمارے ملک کا حال ہم سے زیادہ جانتے ہیں‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا’’میں نے تمہارے ملک کی خوب سیر کی ہے‘‘۔ اس سے گمان ہوتاہے کہ مشتقر اور دَبا کے شہرۂ آفاق میلوں میں آپ ﷺ شاید تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں گئے ہیں اور ممکن ہے کہ یہ بھی حضرت خدیجہ کی شراکت میں کی گئی تجارت ہو۔ مگر اس کا ٹھیک زمانہ معلوم نہیں۔ ممکن ہے حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد بھی آپ کاروبار کے لیے جاتے رہے ہوں۔(رسول اﷲ ﷺ کی سیاسی زندگی۔ ڈاکٹر حمید اﷲ، سیرت النبی۔ شبلی نعمانی، سیر الصحابہ جلد دوم)ایک اور سیرت نگار عبدالقدوس ہاشمی لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کے نکاح کے بعد دس سال تک آپ. ﷺخود بازار میں لین دین کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اس زمانے میں آپ ﷺ نے غالباً تین سفر یمن، نفوذ(نجد) اور نبران (شایدنجران)تک کیے۔ ان کے علاوہ حج کے دنوں میں مکہ کے بازار میں آپ ﷺ بھی حصہ لیتے۔ بحوالہ:فاران ۔ سیرت نمبر 1956ء،بحوالہ: رسول اکرم ؐ بحیثیت تاجر۔ حافظ محمد عارف گھانچی.....علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ایک مغربی مؤرخ مارگولوس نے لکھا ہے کہ ’’ آپ ﷺ نے بحری سفر بھی کیا تھا۔ ان مؤرخ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ. ﷺ مصر بھی تشریف لے گئے اور فلسطین میں بحرِ مردار کی بھی سیاحت کی۔ لیکن تاریخی دفاتر ان واقعات سے خالی ہیں‘‘۔ بحوالہ:سیرت النبیﷺ ۔ شبلی نعمانی ۔ جلد اول
ڈاکٹر حمید اﷲ لکھتے ہیں کہ ’’ بعض جدید سوانح نگاروں کا خیال ہے کہ خود سرورِ کائنات ﷺ بھی حبشہ تشریف لے گئے ہوں گے اور آپ ﷺ کی شاہ نجاشی سے ملاقات ہوئی ہوگی۔ ایسے سوانح نگاروں کے اس خیال کا مرکز اور بنیاد اس تعارفی خط کا انداز خطابت ہے جو سرورِ کونین ﷺ نے اپنے چچا زاد جعفر ابن ابو طالب کے ذریعے شاہ نجاشی کے نام بھجوایا تھا۔ یہ خط کافی حد تک بیتکلفانہ اور دوستانہ ہے۔ طبری کی تحقیق کے مطابق اس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے لکھا تھا کہ ’’میں آپ کے پاس اپنے چچا زاد جعفر کو چند اور مسلمانوں کے ساتھ بھیج رہاہوں۔ جب یہ لوگ آپ کے پاس پہنچیں تو آپ ان کی مہمان نوازی کیجیے گا ‘‘۔ بحوالہ:محمد رسول اﷲ۔ صفحہ 33.....ڈاکٹر محمد حمید اﷲ مزید لکھتے ہیں کہ ’’قیاس کیا جاتاہے کہ حضور پاک. ﷺ نے غالباً کبھی حبشہ سفر بھی کیا تھا۔ حبشہ جانے کا سہل راستہ تو وہی ہے جو مہاجرین اسلام نے اختیار کیا تھا کہ شعیبہ (جدہ) میں جہاز پرسوار ہوکر بحرِ احمر کے دوسرے ساحل پر جا اُتریں ، دوسرا راستہ یہ تھا کہ ایلہ (عقبہ) اور جزیرہ نمائے سینا یا شاید غزہ سے ہوکر (جہاں حضرت محمد ﷺ کے پر دادا ہاشم مدفون بھی ہیں)مصر اور پھر دریائے نیل کے کنارے کنارے حبشہ جائیں، دریا کے بہاؤ کی سہولت کے باعث حبشہ سے مصر کشتی میں آنا بھی ممکن ہے۔ اگر یہ قیاس واستنباط بے جانہ سمجھا جائے تو حضرت کے بحری سفر کا بھی اس طرح امکان پیدا ہوجاتاہے۔ بحوالہ:رسول اﷲﷺ کی سیاسی زندگی ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ

Sunday, October 25, 2009

Map of Mecca

مکّہ عہدِ نبوی ﷺ میں

Cloth & Costume

عہدِ نبوی ﷺ کے لباس

عرب گھرانہ کا لباس


عیسائی گھرانہ کا لباس


یہودی گھرانہ کا لباس


یہودی بادشاہ کا لباس

یہودی راہب کا لباس

بازنطینی (رومن)گھرانہ کا لباس

بازنطینی بادشاہ کا لباس

بازنطینی ملکہ کا لباس

قدیم بازنطینی بادشاہ اور ملکہ کا لباس

بازنطینی بشپ، پادری کا لباس

بازنطینی امراء، درباری کا لباس

بازنطینی ملکہ و کنیز کا لباس

بازنطینی سپہ سالار و سپاہی کا لباس

اینگلو ساکسن بادشاہ اور ملکہ کا لباس

ساکسن سردار اور اس کی بیوی کا لباس

اینگلو ساکسن مرد و سپاہی کا لباس

اینگلو ساکسن خواتین و کنیز کا لباس

برٹش سپہ سالار و سپاہی کا لباس

کارولنژی (فرانس ) بادشاہ کا لباس

کارولنژی (فرانس ) ملکہ کا لباس

کارولنژی (فرانس ) درباری کا لباس

کارولنژی (فرانس ) بشپ و سپاہی کا لباس

مصری گھرانہ کا لباس

مصری بادشاہ کا لباس

مصری ملکہ کا لباس

مصری درباری کا لباس

فرانک بادشاہ اور ملکہ کا لباس

فرانک شاہی افراد کا لباس

فرانک گھرانہ کا لباس

ترک اور مراکشی گھرانہ کا لباس


مراکشی شاہی خاندان کا لباس

فارس کے بادشاہ کا لباس

قدیم فارس کے بادشاہ کا لباس

قدیم فارس کے درباری کا لباس

فارس کے سپاہی و شاہی افراد کا لباس

قدیم رومی سپاہی کا لباس

ٹیوٹانک قبائل(جرمن)گھرانہ کا لباس

ٹیوٹانک قبائل(جرمن)سردار کا لباس

ٹیوٹانک قبائل(جرمن)سپاہی کا لباس

قدیم ٹیوٹانک قبائل(جرمن)جنگجو کا لباس