Friday, October 23, 2009

War of Prophet

غزواتِ رسولﷺ
غزوۂ ابواء صفر:--- 2ہجری623ء اگست623ء
غزوۂ بواط
:--- ربیع الاول2ہجری ستمبر623ء
غزوۂ ذی عُشیرہ
:--- جمادی الاخر2ہجری دسمبر623ء
غزوۂ سفوان
:--- جمادی الاخر2ہجری دسمبر623ء
غزوۂ بدر
:--- 12 رمضان2ہجری 8مارچ624ء
غزوۂ بنی سُلیم:--- 24رمضان 2ہجری 20مارچ624ء
غزوۂ بنی قینقاع
:--- 15شوال2ہجری 10اپریل624ء
غزوۂ سویق
:--- ذی الحج2ہجری
غزوۂ غطفان
:--- محرم3ہجری
غزوۂ احد
:--- 14شوال3ہجری
غزوۂ حمراء الاسد
:--- 15شوال3ہجری
غزوۂ بنو نضیر
:--- ربیع الاول4ہجری اگست625ء
غزوۂ بدرثانی
:--- شعبان4ہجری
غزوۂ دومۃ الجندل
:--- 25ربیع الاول5ہجری
غزوۂ مریسیع
:--- 2شعبان5ہجری
غزوۂ خندق
:--- ذیقعدۃ5ہجری مارچ627ء
غزوۂ بنو قریظہ
:--- 23ذیقعدۃ5ہجری مارچ627ء
غزوۂ بنو لحیان
:--- ربیع الاول6ہجری
غزوۂ بنی قردیہ(غابہ)
:--- 6ہجری
غزوۂ خیبر
:--- جمادی اول7ہجری
غزوۂ ذات الرقاع
:--- جمادی اول7ہجری
غزوۂ موتہ
:--- جمادی الاول8ہجری اگست629ء
فتحِ مکہ
:--- 10رمضان8ہجری 1جنوری630ء
غزوۂ حنین
:--- 6شوال8ہجری
غزوۂ طائف
:--- ذیقعدہ 8ہجری
غزوۂ تبوک
:--- رجب9ہجری



غزواتِ رسولﷺ
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں کم وبیش اٹھاسی مہمات بھیجی تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تھیں جن کی قیادت کسی صحابی کے سپرد تھی جو ’’سرایا‘‘ کہلاتی تھیں اور بعض کی قیادت خود سرورِ عالم ﷺ نے فرمائی اور یہ غزوات کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی تعداد 27ہیں، ان میں سے 9غزوات ایسے ہیں جن میں حضور ﷺ نے دشمنوں سے جنگ کی تھی یعنی بدر، احد، مریسیع، خندق، قریظہ ، خیبر، مکہ، حنین اور طائف اور باقی اٹھارہ میں شمشیر کا استعمال نہیں ہوا۔ (طبقات ابنِ سعد صفحہ 343)
ان تمام غزوات کی تفصیل ، فتح البلدان ، بلاذری، مغازی رسول، واقدی، تاریخ ابن خلدون، سیرت النبیؐ کے حوالہ سے ذیل میں درج کی جارہی ہے۔

غزوۂ ابواء: صفر 2ھ میں حضور ﷺ ، ساٹھ سے دو سو مہاجرین کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ مقصد قریش کی شامی تجارت کو بند کرنا تھا۔ آپ مدینے سے نکل کر کوئی اسّی میل جنوب مغرب میں ابواء تک گئے۔ یہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو جُحفہ سے 13میل دورتھا۔اس مہم میں مشرکین کا تجارتی قافلہ نہ پہنچا اور پندرہ دن کے بعد لوٹ آئے۔ (سیرت النبی۔ شبلی نعمانی، تاریخ ابن خلدون)
غزوۂ بُواط: بُواط مدینہ سے کوئی پچاس میل دُور مغرب کی طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ینُبع سے ایک منزل مشرق میں یہ کبھی قبیلہ جہینہ جو مدینہ سے کوئی ڈیڑھ سو میل شمال مغرب میں آباد تھا کی ملکیت میں یہ خطّہ تھا۔ حضور.. ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک کارواں جس میں اڑھائی ہزار اونٹ ہیں، اور جس کی حفاظت اُمیّہ بن خلف اور سو دیگر آدمی کررہے ہیں، شام سے آرہاہے۔ چنانچہ آپ دو سو صحابہ کو لے کرنکلے۔ آپ بواط تک گئے لیکن قافلہ نہ مل سکا اور واپس آگئے۔ (ابن جوزی)
غزوۂ تلاشِ کُرز: مکّہ کا ایک مہم جُو کُرز بن جابر مدینہ کی چراگاہوں سے بہت سے مویشی ہانک کر بھاگ گیاتھا۔ حضور ﷺ اس کی تلاش میں سوادِ بدر کی ایک وادی سَفوان تک گئے تھے لیکن اُسے نہ پاسکے۔ یہ واقعہ ربیع الاوّل 2ھ میں پیش آیاتھا۔ (استیعاب۔ جلد1:صفحہ 223)
غزوۂ ذی العُشیرہ: ذوالعشیرہ مدینہ کے مغرب میں ساحل کی طرف ینُبع کے قریب ایک موضع جہاں حضور جمادی الآخر2ھ میں ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے گئے تھے۔ آپ کے ہمراہ ڈیڑھ سو صحابہ تھے۔ سواری اور باربرداری کے لیے تیس اونٹ بھی تھے۔ آپ ﷺ قافلے کو نہ پاسکے اور واپس آگئے۔
غزوۂ بدر: بدر دراصل ایک کنویں کا نام تھا جو اُس نواح کے ایک سردار بدر بن حارث یا بدر بن کَلدہ نے کُھدوایا تھا۔ لیکن بعد میں یہ ساری وادی بدر کے نام سے مشہور ہوگئی۔ یہ وادی مدینہ سے کوئی اَسّی میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ یہ وادی بیضوی شکل کی ہے، اندازاً پانچ میل لمبی اور چار میل چوڑی اس کے اردگرد کئی پہاڑیاں ہیں۔ سمندر وہاں سے 13یا12میل کے فاصلے پر ہے۔(ڈاکٹر حمید اﷲ :عہد نبویؐ کے میدانِ جنگ)
حضور ﷺ کو مخبروں نے اطلاع دی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ جس میں ایک ہزار اُونٹ اور تقریباً پانچ چھ لاکھ درہم کا سامان ہے۔ شام کی طرف سے آرہاہے۔ آپ۔ ﷺ اس قافلے کو روکنے کے لیے 12رمضان2ھ کو 313صحابہ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔اس غزوہ میں شہادت پانے والوں کی تعداد 14تھی۔ دوسری طرف قریش کا لشکر 950سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ اُن کے ساتھ سات سو اُونٹ اور ایک سوگھوڑے تھے۔ باایں ہمہ اُن کے ستّر آدمی ، جن میں ابوجہل ، ولید بن عقبہ اور حنظلہ بن ابوسفیان جیسے سردار شامل تھے، مارے گئے اور ستّر اسیر ہوئے۔ اُن میں حضور پاک . ﷺکے چچا عباسؓ اور خالد بن ولیدؓ کے بھائی ولید بن ولید شامل تھے۔ یہ تصادم 17رمضان 2ھ کو ہواتھا اور حضور 23یا22رمضان کو مدینہ واپس آئے تھے۔ (عہدِ نبوی کے میدانِ جنگ :صفحہ45-26، ابن خلدون ،جلد ا:صفحہ 88-82)

غزوۂ بنی قینقاع: مدینہ میں یہود کے تین قبیلے آباد تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر، اور بُنوقُریَظہ، یہ سب کے سب مدینہ کے حوالی میں رہتے تھے اور ان کا گزارہ تجارت، صنّاعی (زرگری وآہنگری) اور زراعت پر تھا۔ قینُقاع زرگری کا کام کرتے تھے اور اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ کے ذخائر بھی پاس رکھتے تھے گو حضور ﷺ نے مدینہ آتے ہی اوس، خزرج اور یہود سے ایک معاہدہ کرلیاتھاجسے انہوں نے توڑدیا۔ اب حضور ﷺ کے پاس جنگ کے سوا کوئی اور صورت باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ آپ ﷺ شوال2ھ کو صحابہؓ کے ایک دستہ لے کر قبیلۂ قینُقاع کی طرف بڑھے اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ پندرہ روز کے بعد یہود نے پیش کش کی کہ مسلمان اُن کے مال میں سے جو چاہیں لے لیں۔ لیکن اُنہیں بال بچوں سمیت مدینہ سے نکل جانے کی اجازت دے دیں۔ حضور ﷺ نے یہ پیش کش منظور فرمالی۔ اس کے بعد وہ لوگ مدینہ کو چھوڑ کر خیبر، فدک اور تیما وغیرہ کی طرف نکل گئے۔ (سیرت النبیؐ۔ جلد1:صفحہ408-395)
غزوۂ سویق: شکستِ بدر کے بعد ابو سفیان نے قسم کھالی تھی کہ وہ اس شکست کا انتقام لے گا چنانچہ مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام عُریض کہلاتاتھا وہاں ایک نخلستان میں دو صحابیؓ مصروفِکار تھے۔ ابوسفیان نے ان دونوں کو قتل کردیا اور پھر ڈر کے بھاگ نکلا اور اُونٹوں کو سُبک سیر بنانے کے لیے سویق (ستّو) کے تھیلے راہ میں پھینکتاگیا۔ اسی مناسبت سے یہ مہم غزوۂ سویق کے نام سے مشہور ہوگئی۔
جب حضور ﷺ تک یہ اطلاع پہنچی تو آپ 5ذی الحجہ کو اسّی80 صحابہ کے ہمراہ ابو سفیانؓ کی تلاش میں نکلے۔ دور تک اُس کا تعاقب کیا۔ لیکن وہ نہ ملا اور آپ. ﷺ پانچ دن کے بعد واپس آگئے۔(ابنِ خلدون۔ جلد1:صفحہ96اور سیرت النبی ؐ۔ شبلی۔ جلد1: صفحہ365)

غزوۂ قَرقَرۃُ الکُدر: حضور. ﷺ کو اطلا ع ملی کہ عرب کے دو اہم قبیلے سُلیم اور غطفان ارحضیہ کے قریب ایک موضع قرقرۃ الکدر میں، جو مدینہ سے کوئی اسّی میل دور تھا، جمع ہورہے ہیں۔ آپ نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور دو سو صحابہ کے ہمراہ محرم 3ھ کو مدینے سے روانہ ہوئے۔ آپ تین چار روز کے بعد منزل پر جاپہنچے۔ لیکن وہاں دشمن کا نشان تک نہ تھا۔ وہا ں صرف اُن کے اونٹ تھے جو صحرا میں چر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہؓ فرمایا کہ یہی اُونٹ اُن کی سواریاں ہیں جن پر چڑھ کر وہ مدینے پر حملہ کرسکتے ہیں، اس لیے انہیں ہانک کر لے چلو۔ چنانچہ وہ اُنہیں ہانک لائے۔(تلقیح۔ ابن جوزی)
غزوۂ غَطَفان: غزوۂ کُدر سے کوئی دو ماہ بعد حضور ﷺ کو اطلا ع ملی کہ نجد کے دو قبیلے ثعلبہ اور محارب، جو غطفان کی شاخیں تھیں، ذوامر(بنو غطفان کاایک موضع میں جمع ہورہی ہیں۔ بنو محارب کے رئیس دُعثور بن حارث اس اجتماع کے قائد ومحرک ہیں چنانچہ آپ ﷺ 12ربیع الاول 3ھ کو 450صحابہ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے ۔ جب ان قبائل کو آپ ﷺ کی آمد کا علم ہوا تو پہاڑوں میں بھاگ گئے۔اس سفر کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ ﷺ وہاں دن کے وقت ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے کہ دبے پاؤں دُعثور وہاں جا پہنچا۔ تلوار سونت کر حضور ﷺ کے سر پر کھڑا ہوگیااور بلند آواز سے کہنے لگا: بتااے محمد ﷺ! تجھے اب مجھ سے کون بچائے گا؟۔ حضور ﷺ نے بے ساختہ جواب دیا’’اﷲ‘‘ دُعثور کے ہاتھ سے تلوار گر گئی جسے حضور ﷺ نے فوراً تھام کر پوچھا’’بتا اب تجھے کون بچائے گا؟ کہنے لگا’’کوئی نہیں‘‘..... اور ساتھ ہی کلمہ پڑھ کر اسلام لے آیا۔ حضور ﷺ وہاں کچھ دیر ٹھہرے اور پھر کسی تصادم کے بغیر واپس چلے گئے۔ (تلقیح۔ ابن جوزی)
غزوہ بنو سُلیم: مدینہ سے کوئی 60/50میل جنوب مشرق میں ایک مقام فُرع کہلاتاتھا اور اُس کے قریب ہی ایک اور موضع بُحران کے نام سے مشہور تھا، حضور ﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو سُلیم بحران میں جمع ہورہے ہیں ۔ 9جمادی الاولیٰ 3ھ کو تین سو صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ منزل پر پہنچے تو وہاں کسی لشکر کا نشان نہ تھا۔
غزوۂ اُحد: بدر کے مقتولوں کا انتقام لینے کے لیے قریش سخت بے تاب تھے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے تین ہزار جانبازوں کا ایک لشکر تیار کیا جس میں سات سو زرہ پوش تھے اور جن کے پاس دو سو گھوڑے اور تین ہزار اُونٹ تھے۔ یہ لشکر 5شوال3ھ اُحد کے قریب فروکش ہوا۔ حضور ﷺ کو لمحہ لمحہ کی خبر مل رہی تھی۔ آپ ﷺ دو دن بعد ایک ہزار افراد کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ جب جنگ شروع ہوگئی تو مسلمانوں کے تُندوتیز حملوں سے قریش کے پاؤں اُکھڑ گئے اور مسلمانوں نے قریش کا سامان سمیٹنا شروع کیا۔ یہ صورت دیکھ کر قُلّہ کوہ کے تیر انداز بھی نیچے کو بھاگے۔ عبداﷲؓ بن جبیر نے بہت روکا۔ لیکن انہوں نے پرواہ نہ کی۔ اس پر خالد بن ولیدؓ نے پیچھے سے حملہ کیا۔ حملہ اتنا تیز تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ ایک خاصی تعداد شہید ہوگئے۔ حضور ﷺ کے چہرے پر چوٹ آئی۔ دائیں طرف کا ایک نچلا دانت ٹوٹ گیا اور آپ ﷺ ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اس پر یہ افواہ پھیل گئی کہ حضور ﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ اس سے عام بدحواسی چھاگئی ۔ بعد ازاں حضور ﷺ کی حیات کی خبر سن کر جاں نثار کفار پر ٹوٹ پڑے۔
اس جنگ میں شہداء کی تعداد 70 تھی۔ ان میں حضرت حمزہؓ ، حضرت عبداﷲ بن حجشؓ، حضرت معصب بن عمیرؓ و دیگر مہاجر صحابہ اور انصار شامل تھے۔ جب کہ مقتولینِ قریش کی تعداد بقولِ ابن خلدون (جلد1۔ صفحہ104) بائیس تھی اور بقول ابن الجوزی (تلقیح: صفحہ25) تئیس تھی۔

غزوۂ بنو نضیر: بنو نضیر یہودِ مدینہ کا ایک قبیلہ تھاجو مسجدِ نبوی ﷺ سے جنوبِ مشرق کی طرف شہر سے باہر آباد تھا۔ یہ ہر وقت اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتاتھا۔ آپ ﷺ ربیع الاول 4ھ میں صحابہ کا ایک لشکر لے کر بنو نضیر کے محلّے میں گئے ۔ ان کا محاصرہ کرلیا اور پندرہ دن کے بعد اس شرط پر صلح ہوئی کہ یہود ہتھیار چھوڑ جائیں اور جتنا سامان اُٹھاسکتے ہیں لے کر مدینہ سے نکل جائیں۔ چنانچہ یہ لوگ خیبر وغیرہ کی طرف چلے گئے ۔ (سیرت النبی ؐ۔ شبلی ۔ جلد1:صفحہ408، عہدِ نبویؐ کے میدانِ جنگ: صفحہ 9، ابنِ خلدون۔جلد1:صفحہ117)
غزوۂ بدر الموعد:جنگِ اُحد کے خاتمے پر ابوسفیان نے بلند آواز سے کہاتھا کہ اگلے سال ہماراتمہارا مقابلہ میدانِ بدر میں ہوگا۔ چونکہ حضور نے اس چیلنج کو منظور کرلیا تھا اس لیے آپ 4ھ کو پندرہ سو صحابہ اور دس گھوڑوں کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابوسفیان بھی دو ہزار ہمراہیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا لیکن اُسے حملے کی ہمت نہ پڑی اور واپس چلاگیا۔ (ابنِ خلدون ۔ جلد اول:صفحہ118)
غزوہ ذاتُ الرقاع: حضور کو اطلاع ملی کہ نجد میں غطفان کے دوقبیلے ثعلبہ اور اَنمار مدینے پر حملے کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ آپ نے چار سو (یا سات سو) صحابہ کے ساتھ محرم 5ھ میں کوچ کیا اور ایک ایسے میدان میں خیمے ڈالے جس کے چاروں طرف سرخ ، سفید اور سیاہ رنگ کی پہاڑیاں تھیں اور یوں نظر آتاتھا گویا رنگ برنگ کپڑے دھوپ میں لٹکے ہوئے ہیں۔ قبائل منتشر ہوگئے اور حضورلڑے بغیر واپس آگئے۔ ذات الرقاع کے لفظی معنی ہیں ’’دھجیوں اور ٹکڑوں والی‘‘ اس سے مراد غطفان کا وہ میدان ہے‘‘۔ (تلقیح از ابنِ جوزی)
غزوۂ دومۃ الجَندل: دومۃ الجندل کا قصبہ مدینہ سے پانچ سو میل شمال میں اس تجارتی شاہراہ کے قریب واقع تھا جو یمن سے شام تک جاتی تھی۔ چونکہ وہاں کے قبائل مدینہ کے تجارتی قافلوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔ اس لیے حضورپاک ﷺ اُن کی گوشمالی کے لیے ربیعِالاول 5ھ کو ایک ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور پندرہ دن کے بعد دومہ پہنچے۔ لیکن قبائل منتشر ہوچکے تھے اس لیے واپس آگئے۔ (تلقیح از ابنِ جوزی)
غزوۂ مُریسیع (یا بنی مصطلِق): مریسیع ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ سے اندازاً سو میل جنوب مغرب میں ساحل کی طرف واقع تھا اس کے نواح میں بنو خزاعہ کی ایک شاخ بنو مصطلق آباد تھی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ یہ قبیلہ مدینہ پر حملے کا ارادہ رکھتاہے۔ آپ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دے دیا اور 5ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو وہ لوگ جنگ کے لیے تیار تھے اُن میں سے دس مارے گئے۔ چھ سو اسیر ہوئے اور غنیمت میں دو ہزار اُونٹ اور پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں۔ اس تصادم میں صرف ایک صحابی شہید ہوئے۔ (شبلی۔ جلد1: صفحہ413، ابنِ خلدون۔جلد1، صفحہ128)
غزوۂ احزاب (خندق): بنو نضیر مدینہ سے نکل کرخیبر میں پہنچے تو انہوں نے انتقام کی ٹھان لی۔ ان کے رؤسا میں سے حُیی بن اخطب اور کنانہ بن ربیع قریش کو ساتھ ملانے کے لیے مکہ میں گئے ۔ وہ پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ اس لیے جھٹ مان گئے ۔ پھر غطفان، بنو اسد، بنو سُلیم، بنو سعد اور چند دیگر قبائل کو ساتھ ملایا اور اس طرح دس ہزار کا لشکر لے کر مدینے کی طر ف بڑھے۔
حضور تک یہ خبریں پہنچیں تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے رائے دی کہ فوج کے لیے ایک موزوں جگہ تجویز کرکے اس کے سامنے خندق کھود دی جائے۔ حضور کو یہ تجویز پسند آئی۔ یہ کھدائی تین ہفتے جاری رہی ، حضور اُن دنوں اپنا گھر چھوڑ کر خندق کے پاس ایک ٹیلے پر خیمہ لگاکر قیام پذیر ہوگئے تھے۔ آپ ﷺ شہر کے باقی لوگوں کے ساتھ خندقیں کھودنے لگے اور اس طرح سارا شہر ایک قلعہ بن گیا۔ جب یہ خندق مکمل ہوگئی تو دشمن بھی آن پہنچا اور اس نے محاصرہ کرلیا۔ محاصرے نے شدّت پکڑی تو مدینہ کے بنوقریظہ بھی دشمن کے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریش نے ہر چند زور مارا کہ وہ خندق کو عبور کرکے آگے نکلیں لیکن تیر اندازوں نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا۔ جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قریش کے ذخائرِ رسد ختم ہوگئے، ساتھ ہی ایک ایسی آندھی چل پڑی جس سے درخت اُکھڑ گئے اور قریش کا مال واسباب اُڑگیا تو وہ گھبراگئے اور اکیس دن کے بعد واپس چلے گئے۔ آپ خندق میں پندرہ یوم رہے ۔ آپ کے ساتھ تین ہزار صحابہ تھے اور حملہ آوروں کی تعداد دس ہزار تھی۔ (شبلی ۔ جلد 1:صفحہ 419، ابنِ خلدون۔ جلد 1:صفحہ 120، عہدِ نبویؐ کے میدانِ جنگ:صفحہ 60)

غزوۂ بنو قرُیظہ: بنو قریظہ یہود کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں مسجدِ نبوی ؐ سے جنوبِ مشرق کی طرف آباد تھا۔ عزوۂاحزاب میں یہ لوگ معاہدے کو توڑ کر قریشِ مکہ کے ساتھ مل گئے تھے اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے میدانِجنگ میں اُتر آئے تھے۔ جب احزاب واپس چلے گئے تو حضور نے صحابہ سے کہا کہ وہ ہتھیار نہ کھولیں اور سب سے پہلے بنو قریظہ کے فتنے کو ختم کریں۔ چنانچہ 5ھ کو آپ تین ہزار صحابہ اور36گھوڑوں کے ساتھ اُن کے محلے میں گئے اور اُن کا محاصرہ کرلیا۔ پندرہ دن کے بعدوہ چیخ اُٹھے اور حضرت سعدؓ بن معاذ کی ثالثی پر بات چیت کے لیے آمادہ ہوگئے۔
غزوۂ بنو لحیان:بنو لحیان قبیلہ ہُذیل کی ایک شاخ تھی ، جو مدینہ کے جنوبِ مشرق میں آباد تھی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ بنو لحیان کسی شرارت کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ چنانچہ آپ دو سو صحابہ اور بیس گھوڑوں کے ساتھ ربیعِالاول6ھ کو مدینہ سے نکلے۔ وہاں پہنچے تو وہ سب پہاڑوں کی طرف بھاگ چکے تھے۔ اس لیے آپ14 دن کے بعد واپس تشریف لے آئے۔
غزوۂ غابہ : غابہ کے معنی جنگل کے ہیں۔ مدینہ منورہ سے چار میل کے فاصلے پر احد پہاڑ کی پشت پر ہے۔ یہاں وہ میدان مراد ہے جہاں رسول اﷲکے اونٹ چراکرتے تھے۔ (کتاب فرہنگ سیرت: صفحہ217)
ایک رات بنو غطفان کی ایک شاخ فزارہ کے سردار عُیینہ بن حِصن نے چالیس سواروں کے ساتھ غابہ پر حملہ کیا اور بیس اونٹنیاں ہانک کر لے گیا۔ ساتھ ہی حضرت ابو ذر غفاریؓ کے فرزند کو، جو اُسی چراگاہ میں رہتاتھا قتل کر ڈالا۔ حضور کو اطلاع ملی تو پانچ سو (یا سات سو) کی جمعیت لے کر اُن کا پیچھا کیا۔ آپ کے ساتھ آٹھ گھڑ سوار بھی تھے۔ انہوں نے چوروں کو جالیا۔ لڑائی ہوئی، چار چور مارئے گئے اور مسلمانوں میں صرف ایک شہید ہوئے۔ انہوں نے دس اونٹنیاں تو پکڑلیں لیکن باقی دس کو وہ بھگالے گئے۔

غزوہ حدیبیہ: حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے جو مکہ سے بارہ میل شمال میں واقع تھا ۔ جب حضور ذی قعدہ 6ھ میں تقریباً پندرہ سو صحابہ کے ہمراہ عُمرہ کے لیے روانہ ہوئے اور قریش تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے خالد بن ولید کو دوسو سوار دے کر آگے بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو روکے۔ بلدح (مکہ کے قریب ایک وادی) میں فوجیں آمنے سامنے آگئیں ۔ لیکن حضور ﷺ حدیبیہ کی طرف نکل گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں سے آپ نے حضرت خراشؓ بن امیہ کو قریش کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم لڑنے کے لیے نہیں بلکہ صرف عُمرہ کے لیے آئے ہیں۔ قریش نے انہیں گرفتار کرلیا۔ پھر آپ نے حضرت عثمانؓ کو بھیجا۔ وہ بھی دیر تک نہ لوٹے تو آپ نے صحابہ سے ایک ببول کے درخت کے نیچے سرفروشی کی بیعت لی۔ یہ خبرقریش تک پہنچی تو انہوں نے سہیلؓ بن عمرو کو بات چیت کے لیے بھیجا۔ کافی بحث وتمحیص کے بعد معاہدہ حدیبیہ طے پایا ۔ اس معاہدہ کے بعد مکہ ومدینہ کے لوگ آپس میں آزادانہ ملنے لگے اور اہلِ مکّہ ، اہلِ مدینہ کے حسنِ کردار ، حسنِ معاملہ اور حسنِ صحبت سے متاثر ہونے لگے۔ اس سے اسلام کے خلاف نہ صرف عناد کم ہوگیا بلکہ بے شمار دلوں میں دینِ فطرت کے لیے محبت بھی پید اہوگئی۔ (طبقات۔ جلد1:صفحہ438، تلقیح:صفحہ30، شبلی۔ جلد 1 :صفحہ447)
غزوۂ خیبر: خیبر یہود کا ایک قلعہ بند شہر تھا مدینہ سے اندازاً سو میل شمال میں ۔ بنو نضیر، قُریظہ اور قینقاع کے بیشتر جلاوطن یہود وہیں جا ٹھہرے تھے اور ارد گرد کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف مسلسل بھڑکاتے رہتے تھے۔ جب ان کی شرارتیں ناقابلِ برداشت ہوگئیں تو حضور، 7ھ میں سولہ سو صحابہؓ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے، تیر اُٹھانے اور دیگر چھوٹے بڑے کاموں کے لیے کچھ خواتین بھی ساتھ ہولیں۔
خیبر میں کئی قلعے تھے۔ مثلاً سلالم، قموص، نطاۃ، ناعم، زُبیر، قُصارہ ، الوطیع ، شق اور مربطہ۔ جن کی حفاظت پر بیس ہزار سپاہی متعین تھے۔ ان میں قموص مضبوط ترین تھا۔ اس کا رئیس مرحب بن عنتر تھا۔ سب سے پہلے ناعم فتح ہوا۔ پھر کئی دیگر قلعے ۔ لیکن قموص فتح نہ ہوسکا۔ حضور نے یکے بعد دیگرے کئی صحابہؓ کو اس مہم پر بھیجا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس پر حضور نے فرمایا: میں کل ایک ایسے شخص کو عَلم دوں گا جو ناکام نہیں آئے گا۔ دوسرے روز حضرت علیؓ کو عَلم عطا کیا۔ حضرت علیؓ نے قلعہ پر حملہ کیا ، مرحب مرگیا۔ اس کی فوج بھاگ نکلی اور پورے بیس دن کے بعد قموص فتح ہوگیا۔ ساتھ ہی اہلِ خیبر نے ہتھیار پھینک دیے حضور نے سالانہ نصف زرعی پیداوار کا لگان عائد کرکے انہیں کامل امن وامان دے دیا۔ (ابنِ خلدون ۔جلد 1:صفحہ 149، طبقات۔جلد 1:صفحہ447، شبلی ۔ جلد 1:صفحہ475)

فتحِ مکہ: بنو خزاعہ مکہ ومدینہ کے درمیان بدر کے قریب آباد تھے او رمسلمانوں کے حلیف تھے۔ معاہدہ حدیبیہ کے مطابق قبائل عرب کو پوری پوری آزادی تھی کہ جس کے ساتھ چاہیں، معاہدہ کریں۔ فریقین اس کا احترام کریں گے۔ لیکن قریش نے اس شرط کو توڑ دیا اور نجد کے ایک قبیلے بنوبکر کے ساتھ مل کر حضور کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔ حضور ﷺ نے قریش کوپیغام بھیجا کہ مقتولوں کا خون بہا اداکرو لیکن قریش نے انکار کردیا۔ اس پر حضور اکرم ﷺ 10رمضان 8ھ کو دس ہزار صحابہ کے ہمرہ مدینہ سے نکلے۔ جب مکہ کے قریب مرُّا الظہران میں پڑاؤ ڈالا تو ابو سفیان رات کے وقت چند دیگر آدمیوں کے ساتھ جائزہ لینے کے لیے مرّاالظہران میں گیا۔ کسی صحابی نے اسے دیکھ لیا اور پکڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں لے گیا۔ وہاں پہنچ کر ابوسفیان نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ مکہ 20رمضان 8ھ کو فتح ہواتھا۔ بعد از فتح حضور پاک ﷺ پندرہ دن اور وہاں رہے۔ پھر حضرت عتّاب بن اُسید کو عاملِ مکہ بناکر واپس تشریف لے گئے۔ (طبقات۔ جلد 1:صفحہ474، شبلی۔ جلد 1: صفحہ509)
غزوۂ حنین: حنین ایک وادی کا نام ہے جو مکہ سے تین دن کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔ اس کے نواح میں ثقیف و ہوازن آباد تھے۔ جب حضور 6شوال 8ھ کو بارہ ہزار مجاہدین کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوئے تو10شوال کو وادئحنین میں پہنچے وہاں ثقیف و ہوازن ہزاروں کی تعداد میں پہلے ہی سے مقیم تھے۔ جب 11شوال کی صبح کا سورج نکلا اور صحابہ کی صفیں دشمن کی طرف بڑھیں تو سامنے سے ہزاروں جوان ٹو ٹ پڑے۔ تیروں کا مینہ برسنے لگا اور یہ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ صحابہِ ادھرُ ادھربھاگ نکلے اور حضور کے پاس صرف سات صحابہ رہ گئے پھر وہ سب لوٹ کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اس شجاعت و بے جگری سے لڑے کہ دشمن گھبراکر بھاگ نکلا اور ستّر لاشیں میدان میں چھوڑ گیا۔ صحابہ میں سے صرف چار نے شہادت پائی۔ اسیروں کی تعداد 6ہزار تک جاپہنچی۔ قبائل کا ایک وفد قیدیوں کی رہائی کے لیے آیا اور رحمتہ للعالمین نے سب کو آزاد کردیا۔ (طبقات۔ جلد 1:صفحہ488، شبلی ۔ جلد 1:صفحہ530)
غزوہ طائف : طائف مکہ کے مشرق میں چالیس میل دور ایک سر سبز وشاداب مقام ہے جہاں وادئ حنین کے مغرور جمع ہوگئے تھے۔ حضور نے حُنین سے فارغ ہوکر شوّال ہی میں طائف کا محاصرہ کرلیا۔ لوگ قلعہ بند ہوکر چھتوں پر سے تیر برسانے لگے جن سے بارہ صحابہ شہید ہوگئے۔ محاصرہ اٹھارہ دن جاری رہا چونکہ طویل سفر اور دومہمّات (مکہ وحنین) کی وجہ سے صحابہ اُکتاگئے تھے۔ اس حضور ﷺ نے محاصرہ اُٹھالیا اور واپس چل دئیے۔ دو ماہ اور سولہ دن کے بعد حضور مدینہ میں تشریف لائے۔
غزوۂ تبوک :تبوک شمالی عرب کا ایک شہر ہے۔ مدینہ سے ساڑھے تین سو میل دور اور خلیج عقبہ سے ایک سو میل مشرق میں ۔ جب شامی تاجروں نے مدینے میں آکر یہ بتایا کہ رومی فوجیں عرب کی شمالی سرحد پر جمع ہورہی ہیں تو حضور ﷺ نے جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ ماہ رجب 9ھ میں تیس ہزار مجاہدین اور دس ہزار گھوڑوں کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے ۔ تیرہ چودہ دن کے بعد تبوک میں پہنچے وہاں بیس دن رہے لیکن رومی فوج سامنے نہ آئی اس لیے آپ واپس چل پڑے اس موقع پر آپ کا گزر قومِ ثمود کی تباہ شدہ بستیوں سے بھی ہوا۔(طبقات ابن سعد۔ جلد 1: صفحہ506

0 comments:

Post a Comment